بینک آف خیبر گزشتہ تین سالوں سے مستقل مینجنگ ڈائریکٹر سے محروم

866

پشاور: خیبرپختونخوا کا بڑا مالی ادارہ بینک آف خیبر(بی او کے) گزشتہ کئی سالوں سے بغیر مینجنگ ڈائریکٹر کے ہی چلایا جا رہا ہے۔

جیسا کہ بینک مستقل گروپ ہیڈ، کمپنی سیکرٹری اور مینجنگ ڈائریکٹر سے محروم ہے اس لیے یہ 2018 سے اعلیٰ عہدوں کے بغیر ہی چلایا جا رہا ہے۔

بینک ذرائع نے کہا کہ مستقل ایم ڈی، گروپ ہیڈ اور کمپنی سیکرٹری کی غیرموجودگی میں مالی ٹرانزیکشنز مبینہ طور پر متاثر ہوئیں۔ بینک کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ کراچی سے اعلیٰ عہدوں سے شئیرہولڈرز، سینئر بانی حکام کے نامزد کردہ افراد کو ہٹانے کے بعد سے بینک کو مسلسل خسارے کا سامنا ہے۔

ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ “آخری سہ ماہی میں 600 ملین روپے کے نقصان کو پورا کرتے ہوئے بینک نے ایک ارب روپے منافع ظاہر کیا ہے، غلط مالی رپورٹ بنانے سے حکام نے بینک کی ساکھ کو داغدار کیا ہے”۔

ذرائع کے مطابق ایک طرف بینک میں سینئر پوزیشنز پر مستقل حکام کی نان ڈویلپمنٹ نے بینک کے مالی معاملات کو متاثر کیا ہے اور دوسری طرف بورڈ آف ڈائریکٹرز سے تین نجی ڈائریکٹرز کی طرف سے انکی مدت میں توسیع کا کہا گیا ہے لیکن وزارتِ خزانہ کے انکار سے بینکنگ کمپنیز ایکٹ کے تحت مزید تعیناتیاں ایک نیا قانونی مسئلہ بن گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق اسماعیل انڈسٹری کے تین ارکان کو 2018ء میں بینک آف خیبر کا بطور ارکان بورڈ آف ڈائریکٹرز منتخب کیا گیا تھا جس کے بعد کمپنی سیکرٹری نے تین نجی ڈائریکٹرز کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو فٹ اینڈ پروپر ٹیسٹ (ایف پی ٹی) کے لیے اپلائی کیا تھا۔

مرکزی بینک نے وفاقی وزارتِ خزانہ کو بینک آف خیبر میں منتخب شدہ نجی ڈائریکٹر کی مزید توسیع روکنے کے لیے خط لکھا تھا جس وجہ سے ایف پی ٹی درخواست کے لیے نجی ڈائریکٹر کی درخواست کو بینک دولت کی طرف سے مسترد کر دیا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے 2018ء سے 2020ء تک ایف پی ٹی مسترد کرنے کی وجہ سے بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے فیصلے نجی ڈائریکٹر کو تمام فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور ادائیگی ‘غیرقانونی’ تصور کی جائے گی۔

ذرائع کے مطابق نجی بورڈ آف ڈائریکٹرز نے بینک کے پینل پر موجود وکیل کے ذریعے عدالت سے رجوع کیا جو مفادات کا تنازع ہے۔ ذرائع کے مطابق بینکنگ کمپنیز ایکٹ کے تحت حکومتی مالی اداروں میں نجی ڈائریکٹر کی تعیناتی دو بار سے زیادہ نہیں کی جا سکتی جبکہ بی او کے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی کینڈی لینڈ گروپ کے ارکان کے لیے پانچویں بار مدت میں توسیع کی گئی ہے۔

وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک نجی رکن کی دوبارہ سے منتخب ہونے کے خلاف اعتراضات اٹھانے کے بعد سندھ ہائی کورٹ سے حکمِ امتناعی لیا ہے۔

ذرائع نے کہا کہ صوبائی حکومت حکومتی بینک کو نجی شعبے کے حوالے کرنے سے متعلق ترمیم کر رہی ہے جو جلد محکمہ خزانہ کے سامنے پیش کی جائے گی۔ حکام نے کہا کہ اس ترمیم کے بعد بینک کے نجی شئیرہولڈرز کے لیے زیادہ اور نجی شعبے کے لیے مزید مواقع پیدا ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن)  اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے نجی ڈائریکٹر کی توسیع کے لیے ہاتھ ملائے ہیں۔ ایکٹ میں ترمیم نجی ڈائریکٹر کے لیے بینک کے تمام معاملات کو کنٹرول کرنے کی راہ ہموار کرے گی۔

بی او کے کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سٹیٹ بینک نے نامزد ڈائریکٹرز کی آزادانہ حیثیت پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔  بینک ایف پی ٹی معیار کے تحت مرکزی بینک سے کلئیرنس کی بنیاد پر نامزد ڈائریکٹرز کی آزادانہ حیثیت اور بینک آف خیبر ایکٹ 1991 کے سیکشن 11 کے تحت یہ تقرریاں کرنا جاری رکھتا ہے۔

یکم جون 2018ء کو منعقدہ ای او جی ایم میں مقصود اسماعیل، اسد محمد اقبال اور جاوید اختر کے نام سے تین ڈائریکٹرز منتخب ہوئے اتھے اور سٹیٹ بینک کو ایف پی ٹی دستاویزات جمع کرائے جانا تھے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here