خیبرپختونخوا: ایشیائی ترقیاتی بینک کے فنڈڈ منصوبوں میں بے ضابطگیوں کا انکشاف

427

پشاور: ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے خیبرپختوںخوا آڈیٹر جنرل کی طرف سے حالیہ آڈٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے اے ڈی بی کے فنڈڈ منصوبوں میں بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا ہے۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اربن ڈویلپمنٹ کے جاری منصوبوں پر 260.84 ملین روپے خرچ کرنے پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے صوبائی محکمہ بلدیات سے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اے ڈی بی کو آڈیٹر جنرل سے رابطہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

ڈائریکٹر اے ڈی بی اربن ڈویلپمنٹ اینڈ واٹر ڈویژن یانگ یی نے پروجیکٹ ڈائریکٹر کو خط لکھتے ہوئے ان سے جلد صوبائی محکمہ بلدیات سے رابطہ کرنے اور اعتراضات دور کرنے کے لیے ایک مشترکہ اجلاس منعقد کرنے کا کہا ہے۔

اے ڈی بی نے پروجیکٹ ڈائریکٹر سے 31 مئی تک سیکرٹری محکمہ بلدیات سے پیشرفت طلب کی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق 10 اعتراضات میں سروسز پر سیلز ٹیکس بھی شامل ہے آڈیٹر جنرل نے اعتراض اٹھایا کہ کنسلٹینٹس کو ادائیگی کے باوجود سیلز ٹیکس جمع نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں 10.19 ملین روپے نکلوائے گئے۔

اسی طرح منصوبہ کی تکمیل میں تاخیر اور کنسلٹینٹ سے سامان کی فراہمی میں 20.65 ملین روپے پر اعتراض اٹھایا گیا۔

رپورٹ کے مطابق کنسلٹینٹس کو 7 کروڑ 95 لاکھ روپے کی غیرمجاز ادائیگیاں کرنے پر بھی اعتراض اٹھایا گیا۔ رپورٹ میں نوٹ کیا گیا کہ 32 لاکھ ملین روپے کی رقم غیرقانونی طریقے سے پروجیکٹ ڈائریکٹر کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی جبکہ 4 کروڑ 80 لاکھ روپے کے فنڈز سست استعمال کرنے اور طے کردہ اہداف حاصل نہ کرنے کی وجہ سے بھی آڈٹ میں اعتراضات اٹھایا گیا۔

مزید اعتراضات میں کرائے کی عمارت کے اخراجات پر 20 لاکھ روپے کی بے ضابطگیاں بھی سامنے آئی ہیں اس کے علاوہ گاڑی کے لیے ایک کنسلٹینٹ کو 33 لاکھ روپے کی غیرمنصفانہ طریقے سے ادائیگی اور 44 لاکھ روپے کی غیرموزوں شخص کو بطور فنانشل مینجمنٹ سپیشلسٹ کی ادائیگی شامل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ منصوبے میں شامل افراد کو تنخواہوں اور مراعات کی اضافی ادائیگی نے قومی خزانے کو 33 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا۔

یہ بھی واضح رہے کہ صوبائی حکومت کے منصوبوں کے لیے کے پی کی تاریخ میں اے ڈی بی کی طرف سے بھاری قرض پر اعتراضات اٹھائے گئے جو خیبرپختونخوا کے 5 بڑے شہروں میں شروع کیے گئے تھے۔

اس لیے اگر یہ اعتراضات خوش اسلوبی سے حل نہ کیے گئے تو اے ڈی بی کے اعتماد میں کمی آئے گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here