لاہور: پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہراساں کئے جانے کی وجہ سے شوگر ڈیلرز، خریدار اور تاجر ملوں سے چینی کی خریداری نہیں کر رہے اس وجہ سے ملوں سے مارکیٹ کو سپلائی لائن کٹ چکی ہے۔
انہوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کا اجلاس بلایا جائے تاکہ بحرانی کیفیت کو مزید بگڑنے سے روکا جا سکے۔
ترجمان نے کہا کہ پچھلے تقریباََ دو ماہ سے شوگر ملوں کے پاس چینی کا کوئی خریدار نہیں آیا، اس وجہ سے ملوں کو سخت مالی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ کچھ ملوں نے گنے کے خریداروں کو ادائیگیاں کرنی ہیں اور کچھ نے بینکوں کو کلیر کرنے کے علاوہ حکومتی واجبات اور ٹیکس ادا کرنے ہیں لیکن چینی فروخت نہ ہونے کی وجہ سے ملوں کو بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
’چینی کی پیداواری لاگت 105 روپے، 80 روپے کلو نہیں بیچ سکتے‘
’چینی مافیا کے 10 افراد گرفتار، 57 بینک اکائونٹس منجمد‘
پنجاب میں چینی کی قیمت ’فکس‘ کرنے پر مسابقتی کمیشن کو تحفظات
لاہور ہائیکورٹ: رمضان المبارک کے دوران شوگر ملز سے چینی 80 روپے کلو خریدنے کا حکم
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں چینی کی قیمت 80 روپے فی کلو مقرر کئے جانے کی وجہ سے ملوں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ چینی کی پیداواری لاگت 104 روپے فی کلو پڑتی ہے۔
پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ترجمان نے وزیرِاعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے اپیل کی ہے کہ چینی کے بحران میں مداخلت کریں تاکہ شوگر انڈسٹری مشکل صورت حال سے نکل سکے، اگر بحران جاری رہا تو شوگر انڈسٹری دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہے، شوگر ملوں کا کاروبارمزید جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا اور ہزاروں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ امر قومی مفاد میں ہو گا کہ حکومت حقائق کو تسلیم کرے۔ شوگر انڈسٹری حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے کیونکہ یہ قومی صنعت ہے جو ملک کی فلاح کے لیے کام کر رہی ہے۔
قبل ازیں شوگر ملز ایسوسی ایشن پنجاب زون کے چیئرمین چوہدری ذکاء اشرف کی جانب سے وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر کو ایک خط ارسال کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پنجاب کی شوگر ملوں میں چینی کی پیداواری لاگت 105.77 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے جس کی وجہ گنے کی قیمت خرید 350 روپے فی من ہے حالانکہ حکومت پنجاب نے گنے کی فی من امدادی قیمت 200 روپے مقرر کی تھی۔
خط میں کہا گیا تھا کہ شوگر ملوں سے جو چینی عوام کے لئے خریدی گئی ہے، درحقیقت وہ سرمایہ کاروں کی شمولیت کی وجہ سے مبینہ طور پر پنجاب سے باہر جا رہی ہے، پنجاب کے رمضان بازاروں کے لئے تین لاکھ ٹن چینی درکار تھی لیکن حکومت 15 لاکھ ٹن سے بھی زائد اٹھا رہی ہے، اس واضح فرق نے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ پنجاب میں سبسڈی والی چینی خرید کر اس کی بلیک مارکیٹ کریں اور دوسرے صوبوں میں بھی اسمگل کریں۔
واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب کی 40 شوگر ملز سے ان کی پیداوار کے مطابق ایک لاکھ 55 ہزار ٹن چینی 80 روپے کلو گرام کے حساب سے خریدنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ ماہِ رمضان میں لوگوں کو چینی ملنی چاہیے، یہ ثواب کا کام ہے۔ تاہم مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے پنجاب میں چینی کی قیمت ’فکس‘ کرنے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی بلیک مارکیٹ اور سمگلنگ کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔