اسلام آباد: پٹرولیم ڈویژن نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے کہا ہے کہ وہ جون 2020ء میں پٹرول کا ‘مصنوعی بحران’ پیدا کرنے پر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا فرانزک آڈٹ کرے۔
اگرچہ پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے آڈیٹر جنرل کو لکھے گئے خط میں دس آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے فرانزک آڈٹ کی درخواست کی گئی ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ مذکورہ کمپنیاں لائسنس کی خلاف ورزی، ذخیرہ اندوزی سے قیمتوں میں اضافے یا کسی دوسری غیرقانونی سرگرمی میں ملوث تو نہیں رہیں، تاہم آڈٹ کیلئے وقت مقرر نہیں کیا گیا۔
پرافٹ کے پاس موجود خط کی کاپی کے مطابق فرانزک آڈٹ مذکورہ کمپنیوں کے مارکیٹ شئیر کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنے کی درخواست کی گئی ہے کیونکہ دس کمپنیوں کے پاس پٹرول کا 95 فیصد مارکیٹ شئیر موجود ہے۔آڈٹ میں یہ دیکھا جائے گا کہ کمپنیوں نے مقامی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے جون 2020ء کے دوران ریفائنریوں کو کتنے پٹرول کے خریداری آرڈرز دیے یا باہر سے کتنا تیل درآمد کیا۔
یہ بھی پڑھیے:
وفاقی کابینہ سے 58 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کیخلاف تحقیقات کا مطالبہ
آئل کمپنیوں، ڈیلرز کے پرافٹ مارجن میں 6 فیصد اضافے کا نوٹی فکیشن جاری
اے جی پی تحقیقات کرے گا کہ ریفائریوں نے مطلوبہ مقدار میں تیل فراہم کیا یا نہیں، اور اگر نہیں کیا تو کیوں؟ اگر کمپنیوں کے پاس تیل کے مطلوبہ ذخائر موجود تھے تو شارٹ فال کیوں ظاہر کیا گیا؟ ذخائر میں کتنا شارٹ فال ریکارڈ کیا گیا، آرڈرز نہ کرنے کی وجہ سے کتنا شارٹ فال پیدا ہوا اور تیل کی ترسیل تاخیر سے ہونے کی وجہ سے کتنی قلت پیدا ہوئی؟ کسی کمپنی نے اپنے ذخائر میں تو تیل رکھا لیکن پٹرول پمپس کو سپلائی روک دی۔ اے جی اے ان سب سوالوں کے جواب تلاش کرے گا۔
فرانزک آڈٹ میں یہ بھی تحقیقات کی جائیں گی کہ کسی کمپنی نے سستا تیل درآمد کیا اور مقامی سطح پر قیمتوں میں اضافے کے انتظار میں مارکیٹ میں سپلائی نہیں کیا۔ یہ بھی معلوم کیا جائے گا کہ جون 2020ء میں مقامی مارکیٹ میں تیل کی طلب کتنی تھی۔
پٹرولیم ڈویژن نے اے جی پی کو کہا ہے کہ یہ بھی معلوم کیا جائے کہ جون 2020ء میں مذکورہ دس کمپنیوں میں سے ہر ایک کا مارکیٹ شئیر کتنا رہا، جون سے چند ماہ قبل کتنا تھا اور چند ماہ بعد کتنا مارکیٹ شئیر رہا۔
اے جی پی دیکھے گا کہ کسی سرکاری ادارے کا کسی آئل مارکیٹنگ کمپنی کے ساتھ ممکنہ ٹکرائو ہوا ہو، اس کے علاوہ تیل کی سمگلنگ بحران کے دوران ڈیمانڈ اور سپلائی پر کس قدر اثر انداز ہوئی، جون میں کمپنیاں نے کتنا منافع کمایا اور یہ منافع وبا سے قبل یا لاک ڈائون ختم ہونے کے بعد کتنا تھا۔
واضح رہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سابق مشیر پٹرولیم ندیم بابر نے آگاہ کیا تھا کہ ملک میں کل 66 آئل کمپنیوں کے پاس مارکیٹنگ کا لائسنس موجود ہے جن میں سے 8 کمپنیاں 92 فیصد مارکیٹ شئیر کی مالک ہیں لہٰذا یہ دیکھا جانا چاہیے آیا کہ باقی کمپنیاں غیرقانونی سرگرمیوں اور تیل سمگلنگ میں ملوث تو نہیں۔