بھارت، کسانوں کی بھوک ہڑتال، حکومت نے دہلی کے مضافات میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی

573

دہلی: بھارت میں احتجاجی کسانوں کی نئی دہلی کے قریب ایک روز کے لیے بھوک ہڑتال پر حکام نے دارالحکومت کے مضافات میں موبائل انٹرنیٹ سروسز ہی معطل کر دیں۔

بھارت میں کسانوں کے متنازعہ زرعی قوانین کو کالعدم قرار دینے کے لیے شروع کی گئی تحریک دن بدن زور پکڑتی جا رہی ہے، بھارت میں چند روز پہلے ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں کے دوران کسانوں اور بھارتی حکام کے درمیان جھڑپوں کی صورت میں ایک شخص جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے۔

احتجاجی کسانوں کا کہنا ہے کہ نئے زرعی قوانین سے خوراک کے بڑے خریدکنندہ افراد کو فائدہ جبکہ کسانوں کو نقصان ہو گا، مذکورہ قوانین کے خلاف ملکی دارالحکومت کے اطراف میں گزشتہ دو ماہ سے زائد بھارتی کسان سراپا احتجاج ہیں۔

دہلی کے شمالی علاقے سنگھو بارڈر کے قریب سب سے بڑا اور مرکزی احتجاج کیا جا رہا ہے، بھارتی ریاست ہریانہ سے آنے والی ٹریکٹر ریلی سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس کی اضافی نفری طلب کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیۓ:

بھارت، زرعی قوانین پر کسانوں اور حکومت کے مذاکرات ایک بار پھر ناکام

کسانوں کے احتجاج میں شدت، مودی حکومت کی دوبارہ مذاکرات کی پیشکش

ہریانہ سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ ایک کسان مہیش سنگھ نے بتایا کہ “گزشتہ شب سے کسانوں کے کئی گروہ مرکزی احتجاج میں شرکت کر رہے ہیں۔ یہ احتجاجی مظاہرین ان سے اپنی حمایت ظاہر کرنے کے لیے آئے ہیں اور آئندہ دو روز کے دوران مزید کسانوں کے آنے کی بھی توقع ہے”۔

ادھر بھارتی وزارتِ داخلہ نے کہا ہے کہ ‘شہریوں کی حفاظت’ کے لیے نئی دہلی کے قرب و جوار میں ہونے والے احتجاج کے سبب تین مقامات پر مقامی وقت کے مطابق رات 11 بجے تک موبائل انٹرنیٹ سروسز بند کی گئی تھیں۔

کسانوں کے ایک اور رہنما نے بتایا کہ ہزاروں کسانوں کی جانب سے سنگھو گاؤں اور دیگر دو احتجاجی مقامات پر بھوک ہڑتال کی گئی، یہ بھوک ہڑتال تحریک آزادی کے راہنما مہاتما گاندھی کی برسی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے کی گئی جس کا مقصد تحریک کو پُرامن ظاہر کرنا تھا۔

احتجاج کا انتظام کرنے والی کسانوں کی تنظیم Samyukt Kisan Morcha group کے رہنما درشن پال نے کہا کہ “کسانوں کی تحریک پُرامن رہی ہے اور پُرامن ہی رہے گی”۔ 30 جنوری کو سچ کا بول بالا کرنے اور پُرامن رہنے کے لیے مختلف پروگرام منعقد کیے جائیں گے”۔

بھارتی حکومت اور کسانوں کی یونینز کے درمیان اب تک 11 بار مذاکرات کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ حکومت نے مذکورہ قوانین کو 18 ماہ تک موخر کرنے کی پیشکش بھی کی ہے لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس قانون کے مکمل خاتمے تک احتجاج ختم نہیں کریں گے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here