اسلام آباد: سال 2020ء کے آغاز میں پاکستان کے معاشی اعشاریوں میں گراوٹ کے بعد بہتری آنا شروع ہوئی البتہ عالمی وبا کے باعث لاک ڈاؤن نے پوری دنیا کی معیشت کو اپنی جکڑ میں لیا، اس کے منفی اثرات پاکستان کی معیشت پر بھی پڑے جس کے نتیجہ میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح منفی 0.38 تک کم ہو گئی۔
پاکستان کی معیشت میں آخری مرتبہ منفی گروتھ مالی سال 52-1951ء میں دیکھی گئی تھی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلہ کے باعث ملکی معیشت دوبارہ بحالی کی جانب گامزن ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 1.426 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق جون 2020ء کے اختتام پر مجموعی زرمبادلہ ذخائر 18 ارب 88 کروڑ ڈالر کی سطح پر تھے جس میں سے سٹیٹ بینک کے پاس 12 ارب 13 کروڑ ڈالر جبکہ نجی بینکوں کے پاس 6 ارب 75 کروڑ ڈالر موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیے:
‘پاکستانی معیشت کو پٹڑی پر واپس لانے کیلئے فیصلہ کن اصلاحات کی ضرورت’
2021ء پاکستانی معیشت کیلئے کیسا ہو گا؟ آئی ایم ایف کی امید افزا رپورٹ سامنے آ گئی
تاہم کیلنڈر سال 2020ء کے اختتام تک پاکستان میں زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کا حجم 20.313 ارب ڈالر کی سطح پر ریکارڈ کیا گیا جس میں سے سٹیٹ بینک کے پاس 13 ارب 21 کروڑ ڈالر جبکہ دیگر نجی بینکوں کے پاس 7 ارب 9 کروڑ ڈالر موجود ہیں۔
اسی طرح سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال 2020-21ء میں جولائی سے نومبر کے دوران ترسیلات زر میں گزشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلہ میں 27 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
سٹیٹ بینک کے مطابق پچھلے پانچ سال کے برعکس رواں مالی سال 2021ء میں موجودہ تجارتی توازن میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے جبکہ ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ مسلسل پانچویں مہینے سرپلس ہونے کے بعد 44 کروڑ 70 لاکھ ڈالر پر پہنچ گیا ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 32 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تھا۔
مزید برآں رواں مالی سال میں جولائی سے نومبر کے دوران مجموعی کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس بڑھ کر 1.64 ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ گیا جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے دوران 1.745 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔
کورونا لاک ڈاؤن کے باعث متاثرہ معیشت کی بحالی ممکن بنانے کیلئے وزیراعظم عمران خان نے اپریل 2020ء میں تعمیراتی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے لاک ڈاؤن میں نرمی کی جس کے باعث معیشت میں بہتری آئی اور ملک میں روپے کی گردش میں بھی تیزی ریکارڈ کی گئی۔
حکومت کے تعمیراتی پیکج کے مطابق ودہولڈنگ ٹیکس معاف کر دیا گیا اور صرف اسٹیل اور سیمنٹ پر ود ہولڈنگ ٹیکس برقرار رکھا گیا جبکہ تعمیرات کے شعبہ میں شامل دیگر چیزوں پر ٹیکس معاف کر دیا۔
اس کے علاوہ نئی پالیسی کے تحت بینکوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ نجی قرضوں میں سے پانچ فیصد تعمیرات کے شعبہ کو دیں ، اس کے ساتھ بینک تعمیرات کے شعبہ میں سالانہ 330 ارب روپے کے قرضے دے سکیں گے۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے تعمیرات کے شعبہ میں فکسڈ ٹیکس پالیسی متعارف کرائی ہے جس کے تحت 31 دسمبر 2021ء تک تعمیرات کے شعبہ میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذرائع آمدن نہیں پوچھے جائیں گے۔
ہاؤسنگ اور تعمیراتی صنعت سے معیشت مضبوط کرنے کیلئے نیا پاکستان ہاؤسنگ کے لئے 30 ارب کی سبسڈی بھی رکھی گئی۔ ہر گھر پر تین لاکھ روپے کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا گیا۔ اس پالیسی کے تحت 10 مرلہ کے گھر پر سات فیصد جبکہ پانچ مرلہ کے گھر پر پانچ فیصد سود دینا ہو گا اور لوگ قرضوں کی قسطیں آسانی سے ادا کر سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
نئی پالیسی کے تحت ٹیکسٹائل ایکسپورٹس کا ہدف 20.86 ارب ڈالر مقرر
ٹیکسٹائل برآمدات میں ریکارڈ اضافہ، ایکسپورٹ آرڈرز پورے کرنا مشکل
کپاس کی پیدوار خطرناک حد تک کم، زراعت، ٹیکسٹائل سیکٹر پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟
سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے رواں مالی سال 2021ء میں چار ہزار 900 ارب روپے کا ٹیکس اکھٹا کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے، ایف بی آر کے اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں ٹیکس محصولات میں گزشتہ مالی سال مقابلہ میں چار فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایف بھی آر نے رواں مالی سال میں جولائی تا نومبر 2020ء کے دوران 1688 ارب روپے کا ریونیو حاصل کیا جبکہ اس کا مقرر کردہ ہدف 1669 ارب روپے تھا۔ گزشتہ مالی سال کے ان پانچ ماہ میں 1623 ارب روپے کا ریونیو حاصل کیا گیا تھا جس میں سے انکم ٹیکس کی مد میں 577 ارب روپے حاصل ہوئے، سیلز ٹیکس سے 743 روپے ، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے 104 ارب اور کسٹمز ڈیوٹی سے 264 ارب روپے حاصل ہوئے ہیں۔
مزید برآں ایف بی آر نے رواں مالی سال میں جولائی تا دسمبر 2020ء کے دوران 144 روپے کے ریفنڈز جاری کیے جبکہ گزشتہ مالی کے سال اس عرصہ میں جاری کردہ ریفنڈز 76 ارب روپے تھے۔
اس کے علاوہ ایف بی آر کی جانب سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے مینو فیکچررز کی آسانی کے لیے ایک صفحہ پر مشتمل ٹیکس گوشوارہ بھی متعارف کرایا گیا ہے، 8 دسمبر 2020ء تک 17 لاکھ انکم ٹیکس گوشوارے جمع ہوئے۔
رپورٹ میں سٹاک مارکیٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جنوری 2020ء کے دوسرے ہفتہ میں سٹاک مارکیٹ میں تیزی کے باعث انڈیکس 43 ہزار 200 کی سطح کو عبور کر گیا لیکن کورونا وائرس نے دنیا بھر کی معاشی سرگرمیوں کو منجمد کر دیا جس کے سبب صرف دو ماہ کے بعد پاکستان سٹاک ایکچینج انڈیکس 27 ہزار 200 کی سطح پر آ گیا۔
بعد ازاں لاک ڈائون میں نرمی کی حکومتی پالیسی کے تحت مارکیٹ نے پھر رفتار پکڑی اور دسمبر 2020ء میں انڈیکس 43 ہزار 416 کی سطح پر آ گیا جس میں مزید بہتری کی امید کی جا رہی ہے۔
عالمی وبا کورونا کے باعث معاشی سست روی کے پیش نظر سٹیٹ بینک نے مارکیٹ میں روانی کیلئے رواں سال 625 بیس پوائنٹ کی کمی کرکے مانیٹری ریٹ سات فیصد کر دیا ہے جو تاحال قائم رکھا گیا ہے۔