اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی (پٹرولیم ڈویڑن) نے سیاسی وابستگی کی بنیاد پر گیس منصوبوں پر عملدرآمد اور امتیازی سلوک اختیار کئے جانے کی شکایت پر سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) سے گیس کی تمام منظور شدہ جاری اور نئی سکیموں کی تفصیلات طلب کر لیں۔
قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین عمران خٹک کی زیر صدارت ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان کے علاوہ پٹرولیم ڈویڑن کے حکام نے شرکت کی۔
ایس این جی پی ایل کے منیجنگ ڈائریکٹر عامر طفیل نے کمیٹی کو بتایا کہ بعض علاقوں میں ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کے لئے متعلقہ حکام کی طرف سے منظوری کی ضرورت ہے، اوگرا نے رواں مالی سال کے لئے کمپنی کو چار لاکھ نئے کنکشنز کا کوٹہ دیا ہے جبکہ اس وقت 27 لاکھ درخواستیں زیر التواء ہیں جس کے لئے یہ کوٹہ بہت کم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سوئی نادرن نے رواں سال کے لئے تین لاکھ مزید کنکشنز کی اجازت طلب کی ہے، اوگرا نے زبانی طور پر ہماری درخواست منظور کی ہے تاہم باضابطہ منظوری جلد دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایک مرتبہ جاب نمبر جاری ہو جائے تو پھر پراجیکٹ کی لاگت نہیں بڑھ سکتی اور بعض اوقات بعض مختلف وجوہات کی بنا پر پراجیکٹ منظوری کے چار سے پانچ سال بعد شروع ہوتا ہے جس سے کمپنی کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔
سیکرٹری پٹرولیم نے کمیٹی کو بتایا کہ گیس کی سکیمیں میرٹ پر مکمل کی جاتی ہیں اور ان پر کسی قسم کا کوئی دباﺅ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں گیس کے ذخائر کم ہو رہے ہیں اس لئے تیل و گیس کی تلاش کے لئے سرگرمیاں تیز کرنے کی ضرورت ہے، تمام صوبوں میں ہر سال تیل و گیس کی تلاش کے لئے بلاک پیش کرنے کی تجویز ہے تاکہ مطلوبہ ہدف حاصل کیا جا سکے، اس سلسلے میں یہ تجویز مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں پیش کی جائے گی۔
اس موقع پر سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت انہیں 155 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی قلت کا سامنا ہے جو موسم سرما میں 250 ایم ایم سی ایف ڈی تک بڑھ سکتا ہے تاہم گیس کی کمی ایل این جی کے ذریعے پوری کی جائے گی جس کے لئے پورٹ قاسم سے پاک لینڈ ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک تک 17 کلومیٹر طویل نئی پائپ لائن بچھائی جا رہی ہے، توقع ہے کہ اس پائپ لائن کا منصوبہ دسمبر میں مکمل ہو جائے گا۔