کراچی: ملک بھر میں کورونا وائرس اورلاک ڈاؤن کے نفاذ کی وجہ سے 30 لاکھ افراد بے روزگار اور 67 لاکھ کے قریب ملازمین کو انکی آمدن میں کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان بیورو برائے شماریات پاکستان (پی بی ایس) کی دوسری سہ ماہی کی رپورٹ میں 6 ہزار گھروں کا انٹرویو کی بنیاد پر ایک سروے کیا گیا جس کے مطابق کورونا وائرس کے قومی اور صوبائی سطح پر اثرات معلوم کیے گئے ہیں۔
سروے انفرادی سطح پر ملازمین کی لاک ڈاؤن سے قبل اور بعد میں روزگار کی صورتحال کی عکاسی اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والے پیشے اور صنعتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
سروے میں انکشاف کیا گیا کہ لاک ڈاؤن کے نفاذ سے قبل مجموعی ملازمین کی تعداد 5 کروڑ 57 لاکھ تھی اور وبا کے باعث جب نقل و حمل پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں تو ملازمین کی تعداد 37 فیصد کمی سے 3.5 کروڑ پر آ گئی تھی۔
تاہم اس کے بعد پابندیوں میں آسانی اور معاشی سرگرمیوں کی بتدریج بحالی سے مجموعی ملازمین کی تعداد 5 کروڑ 25 لاکھ ہو گئی تھی۔ کورونا وائرس کے نتیجے میں 32 لاکھ ملازمین کو انکی نوکریوں سے برخاست کیا گیا تھا۔
پی بی ایس کے اعدادوشمار سے مزید معلوم ہوا کہ ملازمین کے نوکریوں سے فارغ ہونے کے ساتھ 67 لاکھ کے قریب ملازمین کو انکی آمدن میں بھی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔
انڈسٹری کے لحاظ سے متاثرہ ملازمین کی نمائدنگی کرنے والے سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے صنعتی شعبے کے ملازمین سب سے زیادہ متاثر ہوئے جیسا کہ اس شعبے میں کام کرنے والی 59 فیصد آبادی شامل ہے کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے اور 21 فیصد آبادی کو انکی آمدن میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔
سروے میں انکشاف ہوا کہ اکتوبر 2020 تک صنعتی شعبے میں روزگار مکمل طور پر بحال نہیں ہوا۔ مرکزی بینک کی رپورٹ کے مطابق مجموعی روزگار کی شرح نمو مثبت ہو کر مالی سال 2021 کے جولائی تا نومبر کے دوران 0.9 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں یہ شرح نمو 0.3 فیصد تھی۔
صوبائی سطح پر یہ اعدادوشمار صوبہ پنجاب کے لیے روزگار کی تعداد میں اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔ مالی سال 2021 کے جولائی تا نومبر کے دوران پنجاب میں روزگار میں 1.6 فیصد اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران روزگار کی شرح میں 3.9 فیصد کمی آئی تھی۔
مزید برآں مالی سال 2021 کی پہلی دو سہ ماہیوں میں روزگار کی شرح نمو جاری مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں 2.3 فیصد بہتر رہی۔ اس کی وجہ پنجاب کی صنعتی شعبے میں سرگرمی کی سظح کا اضافہ ہے جو مالی سال 2021 کی پہلی سہ ماہی میں 3.8 فیصد اور مالی سال 2021 اکتوبر تا نومبر کے دوران 5 فیصد بڑھی۔
سندھ میں زیرجائزہ عرصے کے دوران مینوفیکچرنگ سیکٹر کے روزگار کی شرح نمو منفی رہی۔ اگرچہ یہاں دو نکات نوٹ کرنا اہم ہیں۔ پہلا، مالی سال 2021 کے آغاز سے روزگار کی تعداد میں مسلسل کمی ہونا ہے۔ دوسرے اہم نقطہ کی وضاحت سٹیل انڈسٹری میں روزگار میں نقصان کی منفی شرح نمو ہے جو صوبے کے لیے مجموعی روزگار کا 8 فیصد کے قریب بنتی ہے۔
اپریل تا ستمبر 2020 کے دوران سٹیل انڈسڑی کے لیے اعدادوشمار ریکارڈ نہیں کیے گئے اور جب یہ انڈسٹری دوبارہ بحال ہوئی تو مالی سال کے اکتوبر تا نومبر کے دوران اس انڈسٹری کے روزگار کی 97.5 فیصد منفی شرح نمو دیکھی گئی۔
روزگار کی منفی شرح نمو کی وجہ پاکستان سٹیل ملز (پی ایس ایم) میں ملازمین کو نکالنا بھی ہو سکتا ہے جو سٹیل انڈسٹری کے ماہانہ صنعتی سروے میں دستیاب اعدادوشمار کی اکثریت ہے۔ سٹیل انڈسٹری کے اعدادوشمار کے بغیر مالی سال 2021 کی دوسری سہ ماہی کے ابتدائی دو ماہ کے دوران سندھ کے لیے روزگار میں 0.3 فیصد اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔
سال 2020ء جولائی تا نومبر کے دوران کاٹن ٹیکسٹائل کے روزگار کی شرح نمو منفی ظاہر ہوئی جبکہ مالی سال 2021 جولائی تا نومبر کے دوران یہ شرح نمو 0.4 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ شرح نمو کی رفتار مالی سال 2021 کی پہلی اور دوسری سہ ماہی کے درمیان بہتر ہوئی جس کی وجہ لارج سکیل مینوفیکچرنگ انڈیکس میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی شرح نمو مثبت ہونا ہے۔