کم از کم اجرت کے اعلان کافی  نہیں، عمل درآمد بھی ضروری ہے 

923

ہر سال یکم مئی کی مناسبت سے پاکستان کے تقریباً تمام بڑے اخبارات کے شہر کی خبروں والے صفحات پر عموماً ایک مزدور کی تصویر ہوتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ مزدور کون ہے، اس کا نام کیا ہے، یا وہ کیا کر رہا ہے۔ یہ تیز دھوپ میں اینٹیں اٹھانے والا مزدور ہو سکتا ہے یا دیہی علاقے میں روئی چننے والی کوئی خاتون ۔

یوم مزدوراں پر عام تعطیل کے باوجود یومیہ اجرت والے زیادہ تر افراد محنت میں جُتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں مزدوروں کے حقوق کی حالت انتہائی خستہ ہے اور ایسا صرف اجرتی مزدوروں کے ساتھ نہیں۔ یونینز کی مکمل عدم موجودگی کی وجہ سے مزدور طبقہ اور بھی کمزور اور قابل رحم بن چکا ہے۔

پاکستان میں سب سے زیادہ خطرے کا شکار وہ محنت کش ہیں جو یا تو یومیہ دیہاڑی یا کم از کم اجرت پر کام کرتے ہیں۔ پاکستان میں کم از کم اجرت کے مسئلے کی کئی شکلیں ہیں۔ یہاں یا تو اجرت کو صحیح طور پر سمجھا نہیں جاتا یا اس کے بارے میں غلط اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ‘کم از کم اجرت’ کسے کہتے ہیں، اس کا جاننا اور عالمی معیار کے مطابق اس کا نفاذ ضروری ہے۔

‘کم از کم اجرت’ کی اصطلاح اپنی وضاحت آپ ہے۔ قانون کی رو سے کم از کم اجرت وہ کم از کم رقم ہے جو ایمپلائر (employer) یا آجر اپنے کسی کارکن کو اس کی مزدوری کے عوض ادا کرتا ہے۔

اکنامک تھیوری میں کم از کم اجرت وہ رقم ہے جو کسی مزدور یا ملازم کی بنیادی انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کم از کم اجرت کا تصور موجود ہے۔ طلب اور رسد کی مارکیٹ اکانومی میں لیبر سپلائی زیادہ تر لیبر ڈیمانڈ سے زیادہ ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس ملک کی اکثریت تعلیم یافتہ یا ہنر مند نہیں وہاں ایسے لوگوں کی بہتات ہو گی جو معمولی ملازمتیں کرنا چاہیں گے۔ اس سے ملازمتوں کی کمی ہو گی اور زیادہ سے زیادہ لوگ کم پیسوں میں کام کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے: 

’اجرت کم ازکم نہیں منصفانہ ہونی چاہیے، کارپوریٹ سیکٹر میں ابھرتا نیا منظرنامہ

پاکستانی فن ٹیک پلیٹ فارم ’ابھی‘ کا 2 ارب روپے کے سکوک بانڈ کا اجراء

تاہم کم از کم اجرت کا تعین ایک متنازعہ عمل ہے۔ عام طور پر حکومتیں کم از کم ویج لائن (wage line) کا تعین کرتے وقت متعدد عوامل کو مدنظر رکھتی ہیں۔ مثلاً کسی علاقے میں کاسٹ آف لیونگ، افراط زر کی شرح اور معیشت کی مجموعی صورتحال۔

حکومتیں کم از کم اجرت مقرر کرنے سے پہلے ماہرین، لیبر یونینز، کاروباری گروپوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز  سے مشاورت بھی کرتی ہیں۔

پاکستان میں کم از کم اجرت کے قوانین وفاقی حکومت کے ذریعے مرتب کیے جاتے ہیں اور صوبائی حکومتیں انہیں نافذ کرتی ہیں۔ کم از کم اجرت کی شرح صنعت اور شعبے کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے اور وقتاً فوقتاً افراط زر اور دیگر معاشی عوامل کو دیکھتے ہوئے اس پر نظر ثانی بھی کی جاتی ہے۔

پاکستان میں دیگر ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں کم از کم اجرت کا نظام زیادہ تر ماہانہ بنیادوں پر چلتا ہے۔ یہاں اجرت گھنٹوں نہیں دنوں کے حساب سے طے ہوتی ہے۔ پنجاب میں کم از کم اجرت 32 ہزار جبکہ سندھ، بلوچستان، کے پی اور وفاق میں کم از کم اجرت کی شرح 25 ہزار روپے ماہانہ ہے۔

ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ماہانہ کم از کم اجرت مختلف علاقوں یا شہروں میں یکساں ہے مگر وہاں کے اخراجات میں فرق ہے۔ مثال کے طور پر کراچی میں کاسٹ آف لیونگ جامشورو کے دیہی علاقے سے کہیں زیادہ ہو گی۔ یہ ماہانہ اجرت کی شرح کے ساتھ ایک اصولی مسئلہ ہے۔

گویا اگر آپ شہر میں ہیں تو مہنگائی الاؤنس، مکان کا کرایہ، کنوینس الاؤنس اور خصوصی الاؤنس وغیرہ کو کم از کم اجرت کے ساتھ اضافی طور پر دیا جائے۔ یہ قرین انصاف ہے۔

اگر آپ دو سال پہلے کسی پاکستانی سے پوچھتے تو وہ آپ کو بتاتا کہ 25 ہزار روپے ایک باوقار زندگی گزارنے کے لیے کافی رقم نہیں ہے۔ چھ افراد کے اوسط گھرانے میں یہ رقم بمشکل خوراک اور رہائش کے اخراجات پورے کرتی ہے۔ بجلی، گیس، تعلیم اور صحت جیسی چیزوں کو اس میں شامل نہیں کیا جا سکتا مگر دو برس پہلے کم از کم اجرت بھلا 25 ہزار تھی بھی کہاں۔

اب آتے ہیں آج کے دور کی طرف۔ سالانہ مہنگائی کی شرح میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کی آمدنی ایک سال پہلے 25 ہزار تھی تو اب یہ 33 ہزار سے زیادہ ہونی چاہیے۔ کم از کم اجرتوں میں 10 ماہ قبل اضافہ کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے پاکستان میں مجموعی طور پر افراط زر میں 30 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

لیکن پھر بھی یہ تصویر مکمل نہیں۔ توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ صرف اپریل میں خوراک کی افراط زر 48 فیصد سے زیادہ ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرامت علی نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہر کارکن کو کم از کم 50 ہزار روپے ماہانہ دیے جائیں تاکہ وہ خوراک، صاف پانی، تعلیم اور صحت کی سہولیات حاصل کر سکے۔

اگر آپ سوشل میڈیا پر جاکر سروے کریں اور لوگوں سے پوچھیں کہ کم از کم آمدن کیا ہونی چاہیے توشاید ہی کوئی 25 ہزار کے عدد کے قریب آئے جو اس وقت رائج ہے۔ ہر کوئی زیادہ رقم بتائے گا۔

عالمی بینک کے مطابق ایک گھرانے کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے روزانہ کم از کم  2 ڈالر درکار ہیں۔ تاہم یہ عالمی بینک ہی تھا جس نے تقریباً 18 ماہ قبل بتایا تھا کہ کس طرح 83 فیصد پاکستانیوں کو روزانہ کی بنیاد پر اس رقم تک رسائی حاصل نہیں۔ اس کے بعد ڈالر کی قیمت تقریباً دوگنی ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ اب تک ‘کم از کم اجرت’ جو بھی مقرر کی گئی ہے وہ کبھی بھی کافی نہیں رہی اوراس نے ہمیشہ مزدوروں کے استحصال کی گنجائش چھوڑی ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کا کہنا ہے کہ  ایک اندازے کے مطابق 80 فیصد غیر ہنر مند ورکرز ماہانہ 25 ہزار روپے کی کم از کم اجرت وصول نہیں کر رہے جو چند ماہ قبل دی گئی تھی۔ یہیں سے بنیادی مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔

پرافٹ سے گفتگو کرتے ہوئے مزدوروں کے حقوق کے علمبردار عمر گیلانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ  زیادہ تر لوگ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کم تنخواہ ملنے پر اپنے آجر کے خلاف کچھ کر نہیں سکتے۔ انہیں یہ بھی ڈر ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے حق کیلئے آواز اٹھائی تو ان کا تبادلہ کر دیا جائے گا یا ملازمت سے نکال دیا جائے گا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر راولپنڈی کے ایک برتن بنانے والے کارخانے کے مالک نے ’پرافٹ‘ کو بتایا کہ بالغ مردوں کو ملازمت دینا ان کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ وہ 20 ہزار سے زیادہ تنخواہ کی توقع رکھتے ہیں جو ہم صرف اپنے تجربہ کار کارکنوں کو ہی دیتے ہیں۔

یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں تنطیم سازی اور عوامی بیداری کے کسی بھی کام کی عموماً حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ کرامت علی کے مطابق پاکستان کو مختلف ذرائع ابلاغ میں ایک مربوط آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے جیسا کہ برطانیہ کی حکومت نے سال 1990 میں کیا تھا۔

بہت سے کارکن قانونی کارروائی کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کے معاہدوں کی میعاد ختم ہونے کے بعد ان کی تجدید نہیں ہوتی، اور ان کے پاس ملازمت کا ثبوت نہیں ہوتا۔ ملازمت کے ثبوت کے بغیر اگر وہ بہتر اجرت چاہتے ہیں تو انہیں نوکری سے نکالنا آسان ہو جاتا ہے۔

یقیناً آگاہی ہی اتنا کچھ کر سکتی ہے، جس کیلئے بہترین ذریعہ تعلیم ہے۔ پاکستان جیسے پاور سٹرکچر میں جو طاقت امیر کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ غریبوں کے لیے امیروں کے خلاف ہتھیار اٹھانا ناممکن بنا دیتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس موضوع کو اسمبلیوں کے ایجنڈے اور سیاسی جماعتوں کے منشور میں شامل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔

کم از کم اجرت کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ پاکستان میں غربت اور عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے اقدامات کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔

 کم از کم اجرت صرف پیسے کے بارے میں نہیں ہے، یہ وقار اور احترام کے بارے میں بھی ہے۔ جب کارکنوں کو مناسب اجرت دی جاتی ہے تو وہ اپنی محنت کی قدر اور حوصلہ افزائی محسوس کرتے ہیں۔ اور جب سب کو مناسب اجرت دی جاتی ہے تو اس سے سب کے لیے ایک زیادہ منصفانہ اور مساوی معاشرہ تشکیل دینے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here