’اجرت کم ازکم نہیں منصفانہ ہونی چاہیے، کارپوریٹ سیکٹر میں ابھرتا نیا منظرنامہ

604

مختلف کمپنیوں اور اداروں کے سربراہان (سی ای اوز) کی جانب سے ملازمین کی اجرت یا تنخواہوں کے حوالے سے نئی پیشرفت سامنے آئی ہے۔ وہ ’کم از کم تنخواہ‘ نہیں بلکہ ’منصفانہ اجرت‘ پر زور دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ناصرف ملازمین کے حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں کی جگہ لے رہے ہیں بلکہ ملازمین کے معاشی حقوق کی وکالت کرنے میں اُن سے بھی ایک قدم آگے ہیں۔

کارپوریٹ دنیا میں اس حوالے سے ایک نئی اصطلاح متعارف ہوئی ہے فئیر لیونگ ویج (fair living wage)۔ اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ’کم از کم اجرت‘ قصہ پارینہ ہو چکی ہے۔ ایک کُل وقتی ملازمت کسی کو غربت سے نکالنے کے لئے معاون سمجھی جاتی ہے مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ فئیر لیونگ ویج کے لحاظ سے کم از کم تنخواہ ساڑھے 51 ہزار روپے ہونی چاہیے جو کچھ صوبائی حکومتوں کی طرف سے مقرر کردہ کم از کم اجرت سے تقریباً دوگنا زیادہ ہے۔

حال ہی میں کراچی میں منعقدہ ایک گول میز کانفرنس کے موقع پر یونی لیور پاکستان کے سی ای او عامر پراچہ نے کہا کہ 2020ء میں یونی لیور پاکستان نے بغیر کسی بیرونی دباؤ کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ہر ملازم کو 2030ء تک منصفانہ اجرت دی جائے گی۔ کمپنی آج 60 فیصد ملازمین کو ’’فئیر لیونگ ویج‘‘ کے اصول کے تحت منصفانہ اجرت دے رہی ہے اور آئندہ ڈیڑھ سال میں یہ تعداد  100فیصد تک لے جانے کا عزم ہے۔

دیکھا جائے تو منصفانہ اجرت کی تحریک پاکستان میں بتدریج زور پکڑ رہی ہے جسے بینک الفلاح، جاز، بینک آف پنجاب، کریم اور فوڈ پانڈا جیسی بڑی کمپنیوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ چھوٹی کمپنیاں بشمول سٹارٹ اَپس بھی اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ سماجی طور پر ذمہ دار کمپنیوں کا خیال ہے کہ ہر کُل وقتی ملازم منصفانہ تنخواہ وصول کرنے کا مستحق ہے۔

عامر پراچہ کے خیال میں ’اگر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو ہمیں (کمپنیوں کو) خوشحالی کی دوڑ میں شامل ہونا چاہیے۔‘ وہ اپنے ساتھی سی ای اوز کو کئی سالوں سے ’فئیر لیونگ ویج‘ کو تنخواہ کے معیار کے طور پر اپنانے کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس 25 ہزار روپے کو کم از کم تنخواہ کہا گیا ہے، موجودہ حالات میں اس میں کسی کا بھی گزارہ ممکن نہیں۔ البتہ یہ نکتہ نظر کاروباری حلقوں میں بہت سے لوگوں کی ناراضی کا باعث بھی بنا ہوا ہے۔

جاز کے سی ای او عامر ابراہیم نے کہا کہ ’آپ آدھے انجن پر پرواز نہیں کر سکتے۔‘ انہوں نے کم تنخواہ والے ملازمین کا حوالا دیتے ہوئے کہا کہ ایسا ملازم کمپنی کے ساتھ  ضرور رہتا ہے لیکن اچھی کارکردگی نہیں دکھا پاتا۔

ملازمین کو جلد ان کی تنخواہوں تک رسائی دینے کیلئے مختلف اداروں کے ساتھ کام کرنے والی فن ٹیک کمپنی ’’ابھی‘‘ (Abhi) کے نمائندے کا کہنا تھا کہ وہ اپنے کارپوریٹ کلائنٹس کے ملازمین کو نئے مہینے کے پہلے دن سے بھی قبل تنخواہ دے دیتے ہیں کیونکہ کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے ملازمین شدید مالی دباؤ کا شکار ہیں۔

کراچی کی ایک بڑی ٹیکسٹائل ملز کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہزاروں ملازمین پر مشتمل اس ملز کی نصف سے زائد افرادی قوت معمول کے مطابق اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے پیشگی اُجرت حاصل کرتی ہے۔ کچھ ملازمین تو ایک ہی ماہ میں اپنی آئندہ مہینوں کی تنخواہوں تک 20 بار رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔

’’فئیر لیونگ ویج‘‘ کے حوالے سے کچھ تجاویز بھی سامنے آئی ہیں جیسا کہ اس کی حامی کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ اپنی مصنوعات پر کوئی مشترکہ نشان یا علامت چسپاں کریں تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ وہ جس کمپنی کی مصنوعات خرید رہے ہیں وہ اپنے ملازمین کو منفصانہ اجرت دیتی ہے۔

ایک معروف میڈیا گروپ کی شخصیت نے مشورہ دیا کہ ’فئیر لیونگ ویج‘ پر عمل کرنے والی کمپنیوں کو اپنے مارکیٹنگ اور اشتہارات کے بجٹ کو اُن اخبارات اور چینلز کی مدد کے لیے استعمال کرنا چاہیے جو اپنے کارکنوں کو مناسب اجرت دیتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here