لاہور: سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد پاکستان بھر میں سیاسی کشیدگی نے پرتشدد مظاہروں، جلائو گھیرائو اور شدید توڑ پھوڑ کی صورت اختیار کر لی۔ تین روز تک پرتشدد احتجاج اور ہنگاموں نے قوم کو خوف کی لپیٹ میں لیے رکھا۔ اس کے ساتھ ہی موبائل براڈبینڈ ڈیٹا، ٹویٹر اور یوٹیوب جیسی سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو بند کرنے کا بھی احمقانہ فیصلہ کیا گیا جس سے ابھی تک رجوع نہیں کیا گیا۔
بظاہر حکومت کی وضاحت یہ آئی کہ یہ اقدام ضروری تھا جو پی ٹی آئی مظاہرین کو منظم ہونے سے روکنے کے لیے اٹھایا گیا۔ حقیقت میں موبائل فون سروس اَب بھی دستیاب ہے اور لوگ وی پی این کے ذریعے سوشل میڈیا کی پابندیوں کو خاطر میں نہیں لا رہے لیکن یہ ضرور ہوا کہ خاص طور پر موبائل براڈبینڈ کی بندش نے واقعی کچھ لوگوں کو متاثر کیا جن کی روزی روٹی موبائل ڈیٹا سے جڑی ہوئی ہے ۔
فوری طور پر متاثر ہونے والے والوں میں گِگ ورکرز (gig workers) بھی شامل تھے۔ یہ روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے کارکن ہیں جو کریم، فوڈ پانڈا اور اِن ڈرائیو جیسے پلیٹ فارمز پر پیسہ کماتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنا کام کرنے کے لیے موبائل فون ڈیٹا کے ذریعے بلاتعطل انٹرنیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دنوں فوڈ پانڈا اور کریم جیسی سروسز معطل رہیں کیونکہ ان کے کپتانوں اور رائیڈرز کے پاس سواریوں/ آرڈرز کو قبول کرنے یا میپ جاننے کا کوئی طریقہ دستیاب نہیں تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 13 ہزار سے زائد فوڈ پانڈا اور بائیکیا رائیڈرز، 30 ہزار اوبر اور کریم کے کپتان اور تقریباً 12 ہزار فوڈ پانڈا ہوم شیف ہیں جن کی یومیہ اجرت براڈ بینڈ ڈیٹا پر منحصر ہے۔
اسی طرح اس شٹ ڈاؤن کا فری لانسرز پر بھی شدید اثر پڑا۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد غیر ملکی کلائنٹس کے لیے فائیور اور اپ ورک جیسے پلیٹ فارمز پر کام کرتی ہے جو کوڈنگ سے لے کر کانٹینٹ رائٹنگ اور سرچ انجن آپٹیمائزیشن تک کی خدمات فراہم کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
انٹرنیٹ کی معطلی، ٹیلی کام آپریٹرز کو ایک دن میں 82 کروڑ روپے نقصان
انٹرنیٹ کی بندش کیسے پاکستانی فری لانسنگ انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے؟
گگ اکانومی پاکستان میں ایک ابھرتا ہوا شعبہ ہے۔ ملک میں فری لانسرز نے 2021ء اور 2022ء میں تقریباً 40 کروڑ ڈالر کمائے جو پاکستان کی کل 2.6 ارب ڈالر کی آئی سی ٹی (انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی) برآمدات کا تقریباً 15 فیصد بنتا ہے۔
شٹ ڈاؤن کے فوری بعد مذکورہ دونوں پلیٹ فارمز نے پاکستانی صارفین کے پروفائلز کے آگے سائن لگا دیئے کہ یہ سروس فراہم کرنے والے ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جسے انٹرنیٹ کی بندش کا سامنا ہے، اس لیے ان کے پراجیکٹس میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ ایسا کرنے میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں تھی۔ ان میں سے بہت سے فری لانسرز اپنا کام کرنے کے لیے براڈ بینڈ ڈیٹا پر انحصار کرتے ہیں۔ فری لانسنگ کی دنیا بڑی سفاک ہے۔ کلائنٹ بہت چنچل ہوتے ہیں اور اس طرح کی رکاوٹوں سے کام میں تاخیر کلائنٹ کے تعلق کو بہت جلد خراب کر دیتی ہے جنہیں بنانے میں بعض اوقات برسوں لگ جاتے ہیں۔
یہی نہیں ‘ڈیجیٹل پاکستان’ کے خواب کو ایک اور دھچکا بھی لگا۔ پوائنٹ آف سیل (POS) مشینیں بھی ناکارہ ہو گئیں۔ پوائنٹ آف سیل مشینیں، جنہیں اکثر ڈیبٹ/کریڈٹ کارڈ مشینوں کے نام سے جانا جاتا ہے، نیٹ ورک کنیکشن قائم کرنے اور ڈیجیٹل ادائیگی کرنے کے لیے سمز کا استعمال کرتی ہیں۔ موبائل انٹرنیٹ سگنلز کے منقطع ہونے سے ان مشینوں نے کام چھوڑ دیا۔ چنانچہ ریٹیل اور گروسری کے شعبہ نے مکمل طور پر نقدی پر کام کیا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو ان مشینوں کے ڈیٹا کو ٹیکس کے حساب کتاب کے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔
ذرائع کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کے ایک دن بعد پاکستان کے اہم ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام میں تقریباً 50 فیصد کمی واقع ہوئی۔ پی او ایس پر اپنے پلیٹ فارم کے ذریعے ون لنک کی طرف سے شیئر کیے گئے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ 10 مئی کو بین الاقوامی پیمنٹ کارڈ ٹرانزیکشنز 45 فیصد کم ہوئیں۔ یکم سے 7 مئی کے دوران یومیہ اوسط ایک لاکھ 27 ہزار ٹرانزیکشنز تھی جو 10 مئی کو کم ہو کر یومیہ تقریباً 68 ہزار رہ گئیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے بینک ایچ بی ایل کے ترجمان علی حبیب کے مطابق اس کی پی او ایس مشینوں کے ذریعے ادائیگیوں میں 60 فیصد کمی دیکھی گئی۔
جاز کے سی ای او عامر ابراہیم نے بتایا کہ وہ انٹرنیٹ کو منقطع کرنے کے عمل کو موجودہ بحران کا ناقص حل سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً 24 گھنٹوں کے لیے 10 کروڑ 25 لاکھ پاکستانیوں کو موبائل انٹرنیٹ سے محروم کر دیا گیا۔
انٹرنیٹ کی بندش کے معیشت پر پڑنے والے تباہ کن اثرات کو اعدادوشمار سے جانا جا سکتا ہے تاہم اس دوران لوگوں کی حالت زار کی عددی پیمائش ممکن نہیں۔ ٹیلی کام آپریٹرز نے پہلے دن انٹرنیٹ کی بندش سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 82 کروڑ روپے لگایا جبکہ ایک دن میں حکومت کو ٹیکس ریونیو کی مد میں 2 کروڑ 87 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ تین روز تک انٹرنیٹ کی بندش نے ایک ارب 60 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان صرف ٹیلی کام کمپنیوں کا پہنچایا، سرکاری خزانے کو تقریباََ 50 کروڑ روپے سے زائد ٹیکس کی مد میں نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔