لاہور: پاکستان پہلے ہی معاشی دلدل میں پھنسا ہوا ہے مگر بالخصوص سابق وزیراعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کی صورت حال کے معیشت پر مزید برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پروگرام کی بحالی کا امکان کم ہو گیا ہے بلکہ یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی مزید گراوٹ کا شکار ہو گئی اور ایک ڈالر 290 روپے کے برابر ہو گیا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق بدھ کو انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 5 روپے 38 پیسے مہنگا ہوا۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے مطابق اوپن مارکیٹ میں ڈالر 7 روپے مہنگا ہو 297 روپے پر فروخت ہوتا رہا۔
ماہرین کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کے بعد معاشی بدحالی کی یہ تصویر غیرمتوقع نہیں تھی جس طرح سابق وزیراعظم کو دھکا دیا گیا، ہاتھا پائی ہوئی، رینجرز کی گاڑی میں دھکیلا اور نیب کی تحویل میں لے جایا گیا اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ سیاسی افراتفری اور ہنگامہ خیزی کے ساتھ معاشی بدحالی بھی بپا ہونے والی ہے۔
گرفتاری کے ردعمل میں کامیاب سٹریٹ پاور کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ عمران خان کے حامی پورے ملک میں باہر نکل آئے اور فوجی چھاؤنیوں میں جاکر احتجاج کیے اور کچھ جگہوں کو بطور خاص نشانہ بنایا۔ یہ صورت حال شاید ہمیں باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت اور عمران خان کے درمیان جھگڑا کم اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے درمیان زیادہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کور کمانڈرز کے گھروں کے باہر مظاہرین کے جمع ہونے کے بے مثال مناظر پہلی بار دیکھے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
عمران خان کی گرفتاری: القادر ٹرسٹ کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے؟
عمران خان کو رینجرز کی ایک چھوٹی بٹالین کے ذریعے غیر مناسب طریقے سے گرفتاری سے چند گھنٹے قبل ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے خبردار کیا تھا کہ اگر جون کے آخر تک عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان دیوالیہ ہو سکتا ہے۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کی آئی ایم ایف کے ساتھ مالی معاملات حل ہونے کی امیدیں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں۔ پاکستان کے پاس چند ہفتوں کی درآمدات کو بمشکل پورا کرنے کیلئے زرمبادلہ ذخائر موجود ہیں۔
ڈالر کے مقابلے ایک بار پھر روپے کی گراوٹ، سونے کی قیمتوں میں مزید اضافہ، عام انتخابات میں تاخیر، سپریم کورٹ کا متنازعہ ہو جانا، ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تاریخی عوامی ناخوشی، اور کمزور وفاقی حکومت ایسے عوامل ہیں جن کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے پاس پاکستان کو ڈوبتا دیکھنے کا کافی جواز موجود ہے اور یہ کہ ان کے پاس پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے کی تقریباً کوئی بھی ٹھوس اور معقول وجہ نہیں ہے۔ پاکستان سے متعلق معاملہ پہلے ہی آئی ایم ایف کے 17 مئی کو ہونے والے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں۔
معاملے کو کچھ اس طرح دیکھیں۔ عوامی حمایت حاصل کرنے والے سابق وزیراعظم کو کرپشن کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔ موجودہ وزیراعظم لندن میں ہیں، اپنے بھائی کی ہدایت پر اپنا قیام بڑھا رہے ہیں اور ٹویٹر پر اپنے ہی دارالحکومت میں ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ملک دیوالیے کے اشارے دے رہا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے اور سڑکیں مشتعل لوگوں سے بھری ہوئی ہیں۔
یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ عمران خان کی اپنی حکومت کے دوران اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین کی سربراہی میں ان کی انتظامیہ کی فنانس ٹیم پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دینے اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات “خراب” کرنے پر بضد رہے۔
پھر پی ڈی ایم کی حکومت آئی۔ مفتاح اسماعیل کچھ ماہ وزیر خزانہ رہے اور کچھ ڈیلیور نہ کر سکے تو ان کو ہٹا دیا گیا۔ اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ کا حلف لیتے ہی سینہ ٹھونک کر کہا کہ وہ کئی دہائیوں سے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کر رہے ہیں اور انہیں ہینڈل کرنا جانتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبات اور شرائط کو پورا کرنے کے لیے سب کچھ کیا ہے اور لگتا تھا کہ سٹاف لیول معاہدہ صرف چند دنوں کے فاصلے پر ہے لیکن چار ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے یہی کچھ سننے کو مل رہا ہے۔ وزارت خزانہ کی طرف سے بیان جاری ہوتا ہے کہ دیوالیہ پن کا کوئی خطرہ نہیں اور جون میں 3.7 ارب ڈالر بیرونی قرض کی واپسی کے انتظامات کر لیے گئے ہیں۔ اس لئے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ مگر ان کو کیسے سمجھایا جائے کہ سیاست اور معیشت کا باہمی تعلق ہے اور عمران خان کی گرفتاری کے معیشت پر مرتب ہونے والے دور رس اثرات کو تسلیم کرنا پڑے گا۔