لاہور: آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے لیے تقریباً ایک سال سے جاری کوششیں اختتام کو پہنچیں اور منگل کی دوپہر انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کر لیا گیا۔
9 اپریل 2022ء کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے چئیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان پر سینکڑوں مقدمات قائم کیے گئے اور انہیں گرفتار کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں۔ سابق وزیراعظم اپنے خلاف مقدمات کو سیاسی استحصال قرار دیتے ہوئے اتحادی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جو اُن کے بقول انہیں (عمران خان) جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتی ہے۔
ابتدائی رپورٹس کے مطابق منگل کو عمران خان کی گرفتاری القادر ٹرسٹ کیس میں ہوئی ہے جو اس وقت قومی احتساب بیورو (نیب) میں زیر تفتیش ہے۔
لیکن القادر ٹرسٹ کیس کی اصل تفصیلات کیا ہیں؟ اس کیس میں رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض بھی شامل ہیں جس کیس کی وجہ سے انہیں طلب کیا گیا ہے وہ 2019ء سے چلا آ رہا ہے، اور اس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف رشوت ستانی، بدعنوانی اور کک بیکس کے الزامات شامل ہیں۔
2019ء میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے ) نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خاندان کے ساتھ 190 ملین پونڈز کے ایک تصفیہ پر اتفاق کیا۔ این سی اے کی تاریخ میں یہ اب تک کا سب سے بڑا تصفیہ تھا جو عدالت سے باہر کیا گیا۔
این سی اے برطانیہ کی قانون نافذ کرنے والی ایک قومی ایجنسی ہے جو برطانیہ اور بیرون ملک منی لانڈرنگ سمیت دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کی تحقیقات کرتی ہے۔ اگر این سی اے برطانیہ سے باہر کسی کیس کی تحقیقات کر رہی ہو تو وہ چوری شدہ رقم متاثرہ ریاست کو واپس کر دیتی ہے لہٰذا اگر ایجنسی پاکستان میں دھوکا دہی یا منی لانڈرنگ کی تحقیقات کر رہی ہے تو وہ برطانیہ میں مقدمہ چلائے گی یا تصفیہ کرے گی اور رقم پاکستانی حکومت کو واپس کرے گی۔
ملک ریاض کے معاملے میں ایسا ہی ہوا۔ ان کے خاندان سے کچھ عرصے سے اس رقم کی بابت این سی اے تحقیقات کر رہی تھی۔ تاہم یہ معاملہ سابق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے داخلے سے گھمبیر ہو جاتا ہے جنہوں نے بظاہر ملک ریاض کے کہنے پر این سی اے کو معاملہ طے کرنے اور رقم پاکستان کو واپس کرنے پر راضی کیا۔
5 دسمبر 2019ء کو شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ 140 ملین پونڈز پاکستان کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں واپس بھیجے گئے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں رقم کیسے منتقل کی جا سکتی ہے تو انہوں نے سوال کو یہ کہتے ہوئے ٹال دیا کہ حکومت، این سی اے اور ملک ریاض نے ’رازداری کے معاہدے‘ پر دستخط کیے ہیں اس لئے وہ اس معاملے کی تفصیل بتانے سے قاصر ہیں۔
ہم بالکل نہیں جانتے کہ اس رقم کا کیا بنا اور یہ وہ مقام ہے جہاں واقعی الجھائو پیدا ہو جاتا ہے۔ بنیادی طور پر الزام یہ ہے کہ ملک ریاض کی جانب سے شہزاد اکبر کی این سی اے کے ساتھ مداخلت کے بعد پاکستان کو واپس بھیجے گئے 140 ملین پونڈز سیدھے پراپرٹی ٹائیکون کے بینک اکاؤنٹ میں واپس چلے گئے۔
پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے بحریہ ٹاؤن سے اربوں کی نقد رقم اور سینکڑوں کنال اراضی اس مدد کے عوض حاصل کی جو عمران خان کی حکومت نے ملک ریاض کو این سی اے کی تحقیقات کے دوران دی تھی۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ بحریہ ٹاؤن نے معاہدہ کیا اور عمران خان اور بشریٰ بی بی کی ملکیتی ٹرسٹ کو 458 کنال اراضی دی جس کی کاغذات میں قیمت 53 کروڑ روپے ظاہر کی گئی تھی۔ یہ زمین القادر ٹرسٹ کو عطیہ کی گئی اور معاہدے پر رئیل اسٹیٹ کے عطیہ دہندگان اور بشریٰ بی بی کے دستخط تھے۔
رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ عمران کے ساتھی شہزاد اکبر نے سارا کیس طے کیا جبکہ 50 ارب روپے جو قومی خزانے کیلئے تھے، بحریہ ٹاؤن کے واجبات کی مد میں ایڈجسٹ کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ عمران نے شہزاد اکبر کے ذریعے 5 ارب روپے ’اپنے حصہ‘ کے طور پر وصول کیے جبکہ بحریہ ٹاؤن نے اُس وقت کی پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے 50 ارب روپے کے تحفظ کے بعد عمران خان اور ان کی اہلیہ کی ملکیت والے ٹرسٹ کو 458 کنال اراضی الاٹ کی جس کی قیمت 53 کروڑ روپے تھی۔ مزید 240 کنال زمین بشریٰ بی بی کی قریبی دوست فرح شہزادی کو منتقل کی گئی۔
یہی 458 کنال اراضی اَب نیب تحقیقات کی زد میں ہے۔ 24 نومبر کو ملک ریاض کو بھیجے گئے طلبی کے نوٹس میں ان سے کہا گیا کہ وہ تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم کے موضع برکلا میں حدبست نمبر 77 میں واقع 458 کنال 4 مرلہ 58 مربع فٹ کی خریداری کے حوالے سے اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے دستاویزی ثبوت کے ساتھ پیش ہوں۔
انسداد بدعنوانی کے اعلیٰ ادارے نے بھی ملک ریاض سے اس حوالے سے مکمل ریکارڈ پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ وہ دستاویز پیش کریں جن کے ذریعے بحریہ ٹاؤن نے مذکورہ زمین القادر ٹرسٹ کو ریونیو دستاویزات کے ساتھ عطیہ کی تھی۔ اسی طرح دیگر جائیداد/عطیہ (اگر کوئی ہے) کی تفصیلات/ معلومات جو بحریہ ٹاؤن، ان کی طرف سے یا ان کے خاندان کے کسی فرد کی طرف سے القادر ٹرسٹ یا اس کے کسی ٹرسٹی کے حق میں منتقل کی ہیں، بھی پیش کی جائیں۔
نیب نے اس سے قبل سابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے 21 ارکان بشمول غلام سرور خان، مراد سعید، پرویز خٹک، شفقت محمود، شیریں مزاری، علی حیدر زیدی، حماد اظہر، ڈاکٹر شیریں مزاری، شفقت محمود، اسد عمر کو اپنے بیان ریکارڈ کروانے کے لیے نوٹس بھیجے تھے۔ نیب نے ملک ریاض کے بیٹے علی ریاض ملک کو بھی طلب کیا تھا۔
گرفتاری کا وقت اہم ہے۔ عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوششیں کئی مہینوں سے جاری تھیں لیکن آخر کار یہ صرف ایک دن بعد ہوا جب سابق وزیراعظم نے اعلیٰ فوجی حکام پر اقتدار سے بے دخل کرنے اور قاتلانہ حملے کے الزامات عائد کیے۔
9 مئی کی صبح اسلام آباد ہائیکورٹ جاتے ہوئے عمران خان نے ویڈیو بیان جاری کیا، یہ بیان انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف اور آئی ایس پی آر کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات کے بعد جاری کیا۔ گو کہ عمران خان کے خلاف مقدمات خاص طور پر القادر ٹرسٹ کیس کی آزادانہ اور منصفانہ انداز میں تفتیش ہونی چاہیئے البتہ اس گرفتاری کا وقت کافی اہم ہے۔
وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے کہا کہ بنی گالہ میں 240 کنال اور 458 کنال کی مزید جائیدادیں القادر ٹرسٹ کے نام رجسٹرڈ ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پہلے بھی جائیدادوں کی تفصیلات فراہم کر چکے ہیں اور پی ٹی آئی کے سربراہ کو چیلنج کیا تھا کہ وہ جواب دیں کہ “القادر ٹرسٹ آپ نے کرپشن اور رشوت چھپانے کے لیے بنایا تھا۔”