کراچی: جے ایس گلوبل کی جانب سے جاری کردہ کارکردگی جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شعبہ بینکاری نے سال 2023ء میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ رپورٹ میں 12 بینکوں کو شامل کیا گیا ہے جو شعبہ بینکاری کے 85 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں۔
رپورٹ کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ 2023ء کی پہلی سہ ماہی (جنوری تا مارچ) بینکوں کیلئے غیرمعمولی تھی جس کے دوران بینکوں کی آمدن میں ریکارڈ اضافہ ہوا جسے بلند ترین شرح سود کی مرہون منت قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے بینکوں کیلئے سود پر مبنی آمدن کا بہائو مستحکم رہا۔
گزشتہ دو سالوں میں شرح سود میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جنوری 2023ء تک شرح سود 17 فیصد تھی۔ مارچ میں 300 بیسز پوائنٹس کے اضافے سے 20 فیصد تک ہو گئی اور اَب 21 فیصد ہے۔ شرح سود میں اضافہ اور سود پر مبنی آمدنی (مارک اَپ انکم) بینکوں کے لیے خاطر خواہ ترقی کا سبب بنی۔ زیادہ تر بینکوں نے اپنی سود کی آمدن میں سالانہ دوہرے ہندسے کی شرح نمو دیکھی۔ بینک الفلاح نے سب سے زیادہ شرح نمو ریکارڈ کی جس میں 96 فیصد اضافہ ہوا، میزان بینک 91 فیصد اضافے کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔
اسی طرح بینکوں کے ڈپازٹس میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔ بینک الفلاح اس میں بھی سب سے اوپر رہا۔ 2023ء کی پہلی سہ ماہی میں بینک الفلاح کے ڈپازٹس میں 2022ء کی اسی مدت کے مقابلے میں 32 فیصد اضافہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیے:
آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈویلپمنٹ حبیب بینک کے مزید شیئرز خریدنے کا خواہاں
جے ایس بینک اسلامی کے اقلیتی شئیر ہولڈرز کو نقد رقم میں ادائیگی کیلئے تیار
ڈیجیٹل بینکنگ اپنا راستہ ضرور بنا رہی ہے مگر فی الحال کاغذی نوٹ ہی غالب ہیں، کیوں؟
بہت سے بینکوں کے لیے ان کے ڈپازٹس کا ایک اہم حصہ صفر لاگت والے ڈپازٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ عام طور پر بڑے بینک ہوتے ہوتے ہیں جن کا صارف بیس بھی بڑا ہوتا ہے۔ نتیجتاً چھوٹے بینکوں کے مقابلے میں ان کے پاس کرنٹ اکاؤنٹس کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ یہ کرنٹ اکاؤنٹس صفر لاگت والے ڈپازٹس کی نمائندگی کرتے ہیں کیونکہ انہیں صارفین کو سود کی ادائیگی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
بلند شرح سود کے دوران صفر لاگت والے ڈپازٹس بینکوں کے لیے زیادہ اہم ہوتے ہیں کیونکہ بینک ایسی رقوم کو قرضہ دینے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں یا پھر سرکاری سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری کیلئے۔ دونوں طریقوں سے ہی بینکوں کو سود کی آمدن ملتی ہے جس سے ان کی مجموعی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے بینکوں کے پاس دو الگ الگ طریقوں سے اپنے ذخائر کو استعمال کرنے کا موقع ہے یعنی افراد کو یا کاروباروں کو قرضے دے کر یا پھر سرکاری سیکیورٹیز اور بانڈز میں سرمایہ کاری کر کے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی بینکوں میں کاروبار اور صارفین پر مشتمل نجی شعبے کو قرضے دینے کی بجائے سرکاری سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری کا رجحان رہا۔ بینکوں کی یہ ترجیح اس لیے رہی کیونکہ نجی شعبہ کے قرضے سے زیادہ منافع کا امکان تو ہوتا ہے لیکن اس سے خطرات بھی کافی جڑے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس سرکاری سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری کو خطرے سے پاک سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں سرمائے کا تحفظ اور سود کی آمدن کی وصولی یقینی ہوتی ہے۔
اس رجحان کے نتیجے میں پاکستانی بینکوں میں اوسط ایڈوانسز ٹو ڈیپازٹ ریشو (اے ڈی آر) 51 فیصد ہے جبکہ اوسط انویسٹمنٹ ٹو ڈپازٹ ریشو (آئی ڈی آر) 71 فیصد ہے۔ جولائی 2022ء میں حکومت نے سرکاری سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والی بینکوں کی آمدنی پر ٹیکس میں اضافہ کیا۔ یہ ٹیکس 2022ء میں لاگو ہونا تھا۔ ترمیم کے نتیجے میں بینکوں کی سرمایہ کاری کی آمدن کے لیے 55 فیصد، 49 فیصد اور 39 فیصد کی بھاری ٹیکس کی شرحیں متعارف کرائی گئیں۔ نتیجتاً بینکوں کو ٹیکس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اپنے اے ڈی آرز کو 50 فیصد سے زیادہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔
تاہم رواں سال فروری کے آخر میں حکومت نے ٹیکس ترمیم کو واپس لے لیا۔ اس تبدیلی کے ساتھ بینک اَب صرف 39 فیصد کی ریگولر ٹیکس کی شرح کے ساتھ اضافی 4 فیصد سپر ٹیکس ادا کریں گے۔ اے ڈی آر پر مبنی ٹیکس نافذ کیے بغیر بینکوں کو اب سرکاری سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری کرنے کی آزادی ہے جبکہ حکومت بینکوں سے قرض لے کر خاطر خواہ فنڈز تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکتی ہے۔ اس حکمت عملی سے نجی شعبے کو قرض دینے میں مزید رکاوٹ پیدا ہونے کا امکان ہے۔ نتیجتاً ایم سی بی، یو بی ایل، نیشنل بینک، بینک الفلاح، حبیب بینک جیسے ممتاز بینکوں کا مجموعی اے ڈی آر 50 فیصد کی حد سے نیچے چلا گیا ہے۔