اسلام آباد: گوادر بندرگاہ کا 91 فیصد منافع چینی کمپنی کو چلا گیا جبکہ پاکستان کا حصہ محض 9 فیصد ہے تاہم بندرگاہ کی دیکھ بھال اور بحری جہازوں کے لنگر انداز ہونے کی جگہ سے مٹی اور ریت نکالنا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔
اس بات کا انکشاف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندری امور کے ایک حالیہ اجلاس میں ہوا۔ سینیٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت اجلاس کو بتایا گیا کہ گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) مطلوبہ فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے بندرگاہ کی دیکھ بھال اور بحری جہازوں کے لنگر انداز ہونے کی جگہ سے ملبہ نکالنے کی ذمہ داری نبھانے سے قاصر ہے۔
اجلاس میں بریفنگ کے دوران سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی دیکھ بھال اور ملبہ نکالنے کیلئے 2013-14ء میں سازوسامان کی خریداری پر سوالات اٹھائے جس پر وزارت کے افسر نے جواب دیا کہ اُس وقت ڈریجر (dredger) نہیں خریدے گئے تھے لیکن اس وقت کراچی پورٹ ٹرسٹ کے پاس چار ڈریجر ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
کاشغر کو گوادر سے ملانے کیلئے 58 ارب ڈالر کا پاک چین ریل لِنک منصوبہ زیرِ غور
زرمبادلہ کے مسائل اور عدم ادائیگیوں پر سی پیک کول پاور پلانٹس کی بندش پر چین کو تحفظات
سینیٹر سیف اللہ نے سفارش کی کہ مشتہر کیے گئے تمام ٹینڈرز کے بارے میں رپورٹ طلب کی جائے اور بتایا جائے کہ ٹینڈر پر عمل درآمد کیوں نہ ہوا اور دوبارہ ٹینڈر کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کمیٹی نے قرار دیا کہ دوبارہ ٹینڈرنگ ایک مہنگا عمل ہے اگر ٹینڈر بروقت عمل میں نہیں آتا ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ خریداری کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔
کمیٹی کو چینل/برتھ/آپس/ایف ایم کی ڈیزائن کردہ گہرائی، منظور شدہ گہرائی، حجم اور ڈریجنگ کی ترجیح اور ڈریجنگ پلیٹ فارم کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔ چیئرمین کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ ڈریجرز کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جائے۔
کمیٹی کو بریفنگ دی گئی کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے پاس کراچی بندرگاہ میں اپنی مینٹی نینس ڈریجنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی تعداد میں ڈریجنگ پلیٹ فارم موجود ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ موجودہ سرورز نسبتاً پرانے ہیں اور انہیں بار بار وسیع پیمانے پر مرمت/دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔
’’پاکستان مرچنٹ میرین شپنگ پالیسی‘‘ اور ’’پاکستان مرچنٹ شپنگ آرڈیننس 2001‘‘ میں ترمیم کرنے کیلئے کمیٹی کی طرف سے دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے حکام نے بتایا کہ کمیٹی تمام اہم سٹیک ہولڈرز پر مشتمل ہے جو پالیسی پر نظر ثانی کرے گی اور ترامیم کا جائزہ لے گی۔