وفاقی حکومت کا بجٹ خسارہ 35 کھرب روپے سے تجاوز کر گیا

424

اسلام آباد: قرضوں کی واپسی اور دفاعی اخراجات میں بڑے اضافے کی وجہ سے رواں مالی سال 2022-23ء کے پہلے نو ماہ (جولائی تا مارچ) کے دوران وفاقی بجٹ کا خسارہ 35 کھرب روپے سے زائد ہو گیا جبکہ بلند شرح سود کی وجہ سے قرضوں کی واپسی پر اخراجات غیرمعمولی طور پر 70 فیصد تک بڑھ گئے۔

وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق جولائی 2022ء تا مارچ 2023ء کے دوران سود کے اخراجات 35.8 کھرب روپے رہے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 14.6 کھرب روپے زیادہ ہیں۔

زیر جائزہ مدت کے دوران وفاقی حکومت کی آمدن میں سے صرف قرضوں کی ادائیگی ہی 139 ارب روپے رہی۔ اس سے قبل حکومت کی خالص آمدن سود سمیت جزوی طور پر دفاعی بجٹ کو بھی پورا کر رہی تھی۔

وفاقی حکومت نے 31 کھرب روپے اندرونی قرض ادائیگیوں کی مد میں ادا کیے جو کل قرض ادائیگیوں کے 87 فیصد کے برابر ہیں۔ مقامی بینکوں کو قرض ادائیگیوں کا بڑا حصہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کو بیرونی قرضوں کے ساتھ مقامی قرضوں کی بھی تنظیمِ نو کرنا ہو گی تاکہ دیوالیے کے بڑھتے ہوئے خطرے کا حل تلاش کیا جا سکے تاہم وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دیوالیے سے بچنے کے واحد حل یعنی قرضوں کی تنظیم نو کو رد کر دیا۔

ادھر مرکزی بینک نے مہنگائی پر قابو پانے کیلئے شرح سود 21 فیصد مقرر کر رکھی ہے۔ اس سے مہنگائی پر تو قابو نہ پایا جا سکا البتہ بیرونی قرضوں پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کی صورت میں ملک کی مالی صورتحال مزید بگڑ گئی۔ اس سے حکومت کو قرضوں اور دفاعی ضروریات کی ادائیگی کے لیے دیگر اخراجات میں کمی کرنے پر بھی مجبور ہونا پڑا۔ آئی ایم ایف نے بھی رواں ہفتے شرح سود میں مزید اضافے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

حکومت نے رواں مالی سال کے اختتام تک قرض ادائیگیوں کا تخمینہ 40 کھرب روپے لگا رکھا تھا تاہم یہ 52 کھرب روپے تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔

دفاعی اخراجات کو چھوڑ کر دیگر تمام اخراجات کی مد میں رواں مالی سال پہلے نو ماہ میں اندازوں کی نسبت منفی نمو ہوئی۔ البتہ اخراجات گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 4 کھرب 29 ارب روپے کم ہو کر 20.6 کھرب روپے رہے۔ فوج کی پنشن اور ترقیاتی اخراجات کو چھوڑ کر 9 ماہ میں دفاع پر 10 کھرب روپے خرچ ہوئے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 119 ارب روپے زیادہ رہے۔

محصولات سے مجموعی آمدن بڑھ کر 64 کھرب روپے تک پہنچ گئی جبکہ وفاقی حکومت کے جمع کردہ محصولات کے 29.5 کھرب روپے صوبوں کو منتقل ہوئے۔ 34.4 کھرب روپے کی نیٹ انکم کے ساتھ قرض اور دفاع پر مجموعی اخراجات بڑھ کر 46 کھرب روپے تک پہنچ گئے جو حکومت کی خالص آمدنی سے 11 کھرب روپے زیادہ ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان قرضوں کے جال میں پھنسا رہے گا۔

نو مہینوں میں ترقیاتی اخراجات صرف 3 کھرب 29 ارب روپے رہے جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 4 کھرب 52 ارب روپے کے مقابلے میں 27 فیصد کم ہیں۔ حکومت نے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران سبسڈی کی مد میں 5 کھرب 24 ارب روپے ادا کیے۔

آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان نے سود ادائیگیوں کے بعد اپنے بنیادی خسارے کو جی ڈی پی  کے صفر اعشاریہ دو فیصد کے سرپلس میں تبدیل کرنے کا عہد کیا تھا، تاہم حکومت ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے گی۔

حالیہ جائزہ مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف نے بنیادی بجٹ خسارے کی حد کو جی ڈی پی کے 0.5 فیصد تک محدود کرنے پر اتفاق کیا۔ سٹاف لیول معاہدے تک پہنچنے میں تاخیر کی وجہ سے ابھی تک تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں۔

مالی سال 2023 کے پہلے نو مہینوں میں وفاقی بجٹ کا خسارہ تقریباً 35.4 کھرب روپے تک بڑھ گیا کیونکہ اخراجات اور محصولات کے درمیان فرق جی ڈی پی کے 4.2 فیصد کے برابر تھا جو دراصل گزشتہ سال کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ تھا۔ تقریباً 37 فیصد افراط زر کی بدولت خسارے میں نصف فیصد کمی واقع ہوئی۔

رواں مالی سال کے دوران وفاقی حکومت کے کل اخراجات 17 فیصد اضافے کے ساتھ 7 کھرب روپے سے زائد ہو گئے۔ نو ماہ میں نان ٹیکس وصولی بڑھ کر 12.4 کھرب روپے ہو گئی جو 2 کھرب 58 ارب روپے زیادہ ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here