لاہور: زرمبادلہ کی قلت اور معاشی مشکلات کے شکار پاکستان کو رواں ماہ سے 3 ارب 70 کروڑ ڈالر قرضوں کی ادائیگیاں کرنا ہیں۔
بلوم برگ نے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’فِچ ریٹنگز‘ کی رپورٹ کا حوالا دیتے ہوئے کہا ہے کہ مئی کے دوران پاکستان کو کم از کم 70 کروڑ ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنا ہیں جبکہ مزید 3 ارب ڈالر آئندہ جون میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے چاہییں۔
رپورٹ میں فچ نے توقع ظاہر کی ہے کہ چین سے مزید 2 ارب 40 کروڑ ڈالر کے ڈپازٹس اور قرضوں پر رول اوور ملنے کا امکان موجود ہے جس سے پاکستان کیلئے قدرے آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔
بیرونی قرضوں کی ادائیگی پاکستان کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اپنا بیل آؤٹ پروگرام بحال کرنے کے لئے نہایت اہم ہے جو گزشتہ سال نومبر سے تعطل کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کے نویں جائزے کیلئے ایک کامیاب سٹاف لیول معاہدہ پاکستان کیلئے ایک ارب 10کروڑ ڈالر کی قسط کی راہ ہموار کر دے گا۔
اس وقت سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 4.46 ارب ڈالر ہیں جو ایک ماہ کی ضروری درآمدات کے لیے بمشکل کافی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
درآمدات پر پابندی، تجارتی خسارہ 23.7 ارب ڈالر تک کم ہو گیا
ایف بی آر کو 400 ارب کا ٹیکس خسارہ، 6.02 کھرب روپے ہدف کے مقابلے میں 5.62 کھرب روپے جمع ہو سکے
فچ ریٹنگز کے ہانگ کانگ میں موجود ڈائریکٹر کرِس جینس کرسٹنز (Krisjanis Krustins) کا کہنا ہے کہ انہیں اَب بھی امید ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف پروگرام پر نظرثانی کے بعد ایک معاہدے پر پہنچ جائیں گے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ متوقع معاہدے سے جڑے خطرات بہت زیادہ ہیں اور فروری میں پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اصل خطرہ دیوالیہ ہونے یا قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید وقت نہ ملنے کا ہے۔
گزشتہ ماہ آئی ایم ایف مشن کے سربراہ نے کہا تھا کہ فنڈ نویں جائزے کی تکمیل کیلئے ضروری مالیاتی یقین دہانیاں حاصل کرنے کا منتظر ہے۔ اس کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کیلئے مجموعی طور پر 3 ارب ڈالر یقین دہانی کروائی گئی تھی۔
4 مئی کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزے کے لیے تمام پیشگی اقدامات کی تعمیل کرتے ہوئے مطلوبہ اصلاحات کر لی ہیں۔ ان میں ٹیکس چھوٹ ختم کرکے ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنا، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور کم آمدن والے طبقات کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے سبسڈی کو کم کرنا شامل ہے۔