اسلام آباد: درآمدات پر عائد کردہ پابندیوں کی بدولت رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ (جولائی تا اپریل) کے دوران پاکستان کے تجارتی خسارے میں 40 فیصد یعنی 23 ارب 70 کروڑ ڈالر کمی ریکارڈ کی گئی۔
ادارہ برائے شماریات پاکستان (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق جولائی 2022ء سے اپریل 2023ء تک درآمدات اور برآمدات کے درمیان فرق مجموعی طور پر 15 ارب 60 کروڑ ڈالر یعنی 40 فیصد کم ہوا۔
دراصل حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو قرض پروگرام کی بحالی پر آمادہ کرنے میں ناکامی کے پس منظر میں خود کو محفوظ کرنے کیلئے ڈالر بچا رہی تھی۔ درآمدات کو ایک بڑا جھٹکا اپریل میں اُس وقت بھی لگا جب بیرونی منڈیوں سے خریداری تین ارب ڈالر سے بھی کم ہو گئی جو ملک کی ماہانہ درآمدی ضروریات کا نصف ہے اور اس کی وجہ سے مقامی سطح پر رسد کے سنگین مسائل پیدا ہو گئے۔ خام مال کی کمی کی وجہ سے کئی صنعتیں مکمل یا پھر جزوی طور پر بند ہو گئیں۔
ادارہ برائے شماریات کے مطابق جولائی تا اپریل 2023ء تک پاکستان نے مجموعی طور پر 46 ارب 70 کروڑ ڈالر کی درآمدات کیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 18 ارب 60 کروڑ ڈالر یا 28 فیصد کم ہیں۔ تاہم درآمدات میں یہ کمی عارضی ہے جو بنیادی طور پر بینکوں کی جانب سے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) نہ کھولنے کی وجہ سے ہوئی۔
حکومت کا تخمینہ تھا کہ رواں مالی سال کے اختتام تک مجموعی درآمدات کا حجم تقریباً 65 ارب 60 کروڑ ڈالر رہے گا۔ نظرثانی شدہ تخمینے کے مطابق درآمدات کا حجم مزید کم ہو کر تقریباً 55 ارب ڈالر پر آ گیا۔
درآمدی پابندیوں کا ایک بڑا فائدہ سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ میں کمی کی صورت سامنے آیا جو محض ساڑھے 4 ارب ڈالر ہیں۔ اشیاء کی قلت کی وجہ سے اپریل میں مہنگائی 36.4 فیصد کی بلند ترین شرح تک پہنچ چکی ہے جو 1964ء کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
خطے کے 9 ممالک کو پاکستانی برآمدات میں 28 فیصد کمی، 2 ارب 75 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئیں
وزارت تجارت کا کاروبار اور برآمدات کی سہولت کیلئے پہلا نیشنل کمپلائنس سنٹر بنانے کا فیصلہ
دوسری جانب ادارہ برائے شماریات کے مطابق زیرِ جائزہ مدت کے دوران پاکستان کی برآمدات میں بھی 11.7 فیصد کمی ہوئی جو 23 ارب 10 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئیں۔ برآمدات کا سالانہ ہدف 38 ارب ڈالر مقرر کیا گیا تھا لیکن پہلے 10 ماہ میں ہدف کا صرف 61 فیصد پورا ہو سکا۔ نظرثانی شدہ تخمینہ ظاہر کرتا ہے کہ برآمدات 28 ارب ڈالر سے نیچے رہیں گی۔
برآمدات کی کمی ناصرف حکومت کی حکمت عملی پر سوال اٹھاتی ہے بلکہ حکومت بیرونی فنانسنگ کا فرق کم کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ یہ رجحان پریشان کن ہے کیونکہ گزشتہ ایک سال کے دوران کرنسی کی قدر میں واضح کمی کے باوجود برآمدات میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے ملک کے اندر آنے والے ڈالروں میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
اپریل 2023ء میں برآمدات محض 2 ارب 10 کروڑ ڈالر تک محدود رہیں جو گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 77.3 کروڑ ڈالر یا تقریباً 27 فیصد کم ہیں جبکہ درآمدات تقریباً 56 فیصد کم ہو کر صرف 2 ارب 90 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئیں۔ اپریل میں تجارتی خسارہ 78 فیصد کم ہو کر صرف 82.9 کروڑ ڈالر رہ گیا جو گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 3 ارب ڈالر کی بڑی کمی ہے۔
اسی طرح ماہانہ تجارتی فرق 43 فیصد سکڑ گیا کیونکہ برآمدات میں تقریباً 11 فیصد اور درآمدات میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی۔ درآمدات پر پابندی کی وجہ سے مارچ میں کرنٹ اکاؤنٹ کا بڑا سرپلس ریکارڈ کیا گیا۔ یہ رجحان اپریل میں بھی جاری رہ سکتا ہے اور تجارتی خسارہ صرف 82.9 کروڑ ڈالر ہے۔