لاہور: سٹینڈرز اینڈ پوئر گلوبل کی رپورٹ کے مطابق کمر توڑ مہنگائی کے شکار پاکستانی صارفین تیزی سے سستے ایرانی تیل کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں جس سے مقامی ریفائنریز کے کاروبار کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان میں کل پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت سالانہ لحاظ سے 46 فیصد سے زیادہ گر چکی ہیں اور گزشتہ ماہ اپریل مجموعی فروخت 1.17 ملین ٹن تک محدود رہی ہیں۔ عارف حبیب لمیٹڈ کے مطابق پیٹرول کی بلند قیمتیں، اقتصادی سست روی، ایران سے سمگل شدہ تیل کی آمد میں اضافہ اور فرنس آئل پر مبنی بجلی کی پیداوار میں کمی پٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں کمی کی بنیادی وجوہات ہیں۔
فرنس آئل کی فروخت اپریل 2023ء میں سالانہ 83 فیصد کم ہوئی جس کا حجم 0.07 ملین ٹن تھا۔ پٹرول کی فروخت میں 24 فیصد سالانہ کمی واقع ہوئی جو اپریل میں 0.58 ملین ٹن رہی۔ ڈیزل کی فروخت 50 فیصد کم ہوئی جو اپریل میں 0.46 ملین رہی۔
عارف حبیب لمیٹڈ میں ریسرچ کے سربراہ طاہر عباس نے ایس اینڈ جی گلوبل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ زرمبادلہ ذخائر کی کمی اور روپے کی گراوٹ نے بھی ملک میں ایندھن کی قیمتیں بلند کر رکھی ہیں جس کی وجہ سے چھوٹی نجی تجارتی کمپنیاں اور ایران میں کاروباری نیٹ ورک رکھنے والے افراد رعایتی نرخوں پر ملنے والا ایرانی ڈیزل خریدنے پر مجبور ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
ای سی سی اجلاس: تیل و گیس کے چار فیلڈز کی لیز میں توسیع منظور
پاکستان نے روس سے رعایتی نرخوں پر تیل خریداری کا پہلا آرڈر دے دیا
معاشی سست روی، اپریل میں پٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں 46 فیصد کمی
معاشی پریشانیوں کی فہرست کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ریکارڈ بلند افراط زر کا بھی سامنا ہے جو اپریل 2023ء میں سالانہ بنیاد پر 36.4 فیصد تک پہنچ گیا۔
دریں اثنا ایس اینڈ پی گلوبل رپورٹ نے کراچی میں واقع ایک بروکریج ہاؤس انسائٹ سیکیورٹیز کے حوالے سے بتایا کہ ایرانی ڈیزل کی خاص طور پر پاکستان کے جنوبی علاقے میں وسیع پیمانے پر دستیابی سے مقامی ریفائنرز کے ڈیزل کی فروخت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
رپورٹ میں مارکیٹ کے مبصرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ڈیزل کی اوسط خوردہ قیمت تقریباً 288 روپے فی لیٹر ہے جبکہ ایرانی ڈیزل 230 روپے فی لیٹر میں دستیاب ہے اس میں بھی ایرانی ڈیزل کے فروخت کنندگان منافع کما رہے ہیں۔
رپورٹ میں پارکو کے ایک اعلیٰ افسر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’جنوبی ساحلی علاقے اور زمینی راستوں سے روزانہ 35 ہزار سے 60 ہزار بیرل تک ڈیزل مقامی مارکیٹ میں داخل ہو سکتا ہے اور اس میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے۔‘‘
ایک نجی ڈیلر نے ایس اینڈ پی گلوبل کو بتایا کہ ایرانی ڈیزل کی دراندازی بڑھ رہی ہے اور یہ پاکستان میں ڈیزل کی کل فروخت کے 25 سے 30 فیصد کے برابر جا سکتا ہے جس سے حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
اٹک ریفائنری کے ایک افسر کے مطابق حکومت یا تو صورت حال کی سنگینی کو نہیں سمجھ پا رہی یا پھر زرمبادلہ ذخائر کی کمی کی وجہ سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔
ان کے مطابق ’’ایران سے ایک محدود حد تک پٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ ہمیشہ سرحدی حکام کی ملی بھگت سے ہوتی رہی ہے لیکن یہ کبھی بھی اتنے بڑے پیمانے پر نہیں ہوئی۔ اسے اگر بلا روک ٹوک جاری رہنے دیا گیا تو مقامی ریفائنریز کے بند ہونے کا خدشہ ہے۔‘‘
اس ہفتے کے شروع میں اٹک ریفائنری نے اعلان کیا تھا کہ وہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے ہائی سپیڈ ڈیزل کم مقدار میں خریدنے کی وجہ سے عارضی بنیاد پر اپنے آپریشنز میں کمی کرے گی۔