لاہور: پاکستان میں انشورنس کی بہت زیادہ ضرورت اور طلب ہونے کے باوجود مقامی انشورنس انڈسٹری کو ملک کی زیادہ تر آبادی تک رسائی میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔
پاکستان میں انشورنس کی رسائی کی شرح صرف 0.91 فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ مذہبی تصورات ہیں۔ پاکستان میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انشورنس جوئے کی ایک شکل ہے اور اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ انشورنس پروڈکٹس کے لیے ڈسٹری بیوشن کے ذرائع بھی موثر نہیں ہیں جس کی وجہ سے بیمہ کنندگان کے لیے ممکنہ گاہکوں تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔
تاہم پاکستان میں انشورنس انڈسٹری کے لیے کچھ باتیں امید افزا ہیں۔ پبلک سیکٹر کا ادارہ سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن سب سے آگے رہا ہے اور اس نے مالی سال 2022ء کے پہلے 9 ماہ میں 9.32 ارب روپے کی خالص آمدن کمائی ہے۔ سٹیٹ لائف ملک کے بڑے آجروں میں شامل ہے جس میں تقریباً ساڑھے پانچ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں اور ایک لاکھ 30 ہزار سیلز اہلکار رجسٹرڈ ہیں۔ کمپنی کا پاکستانی مارکیٹ میں حصہ 52 فیصد ہے اور اس کے پریمیئم ریونیو میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 64 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
سٹیٹ لائف کی کامیابی اس کی اختراع اور نئی مصنوعات پیش کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے ہے جو صارفین کو پُرکشش لگتی ہیں۔ کمپنی نے گزشتہ دو سالوں میں زندگی اور صحت کے حوالے سے 22 نئی مصنوعات متعارف کرائی ہیں۔ اس کی کامیاب ترین مصنوعات میں سے ایک گولڈن اینڈومنٹ ہے جس میں پریمیئم اور ادائیگی کی ٹائم لائنز کے لحاظ سے تکنیکی طور پر نظرثانی کی گئی ہے۔ مزید برآں، سٹیٹ لائف اب چھوٹی ٹکٹ انشورنس پالیسیوں پر توجہ مرکوز کر رہی ہے جو آن لائن ذرائع سے بآسانی فروخت کی جا سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
ٹی پی ایل انشورنس نے ٹارگٹ کمپنی خریدنے کی منظوری دے دی
انشورنس محتسب کی جانب سے پالیسی ہولڈرز کو دو ارب 13 کروڑ روپے کا ریلیف فراہم
سٹیٹ لائف نے پالیسی کی خریداری کے لیے ایک ڈیجیٹل پورٹل بھی شروع کر رکھا ہے جو ہر کسی کے لیے دستیاب ہے اور کارڈ کے ذریعے ادائیگی کی جا سکتی ہے تاہم اس میں کچھ مسائل موجود ہیں، اس لئے کمپنی کو اپنا نظام بہتر بنانے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کی صلاحیت کو دیکھنا پڑے گا۔ اسی طرح کلیمز کا طریقہ کار لوگوں کے انشورنس سے بھاگنے کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔
سٹیٹ لائف اَب پاکستان میں صارفین کے لیے انشورنس مصنوعات کو مزید قابل رسائی بنانے پر زور دے رہی ہے۔ مثال کے طور پر کمپنی نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے لیے صحت کارڈ کا ٹینڈر جیتا جو تقریباً ساڑھے 17 کروڑ پاکستانیوں یا ملک کی کل آبادی کے دو تہائی تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ تاہم اس پروگرام کا نفاذ ایک مشکل کام تھا کیونکہ اس کے لیے زیادہ عملے کی خدمات حاصل کرنے، انہیں تربیت دینے اور ہر ہسپتال میں سروس ڈیسک قائم کرنے کی ضرورت تھی۔
مختصر یہ کہ پاکستان میں انشورنس انڈسٹری کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن ان میں سے کچھ چیلنجز پر قابو پانے میں کامیاب رہی ہے۔ جدت اور آسان رسائی کے حوالے سے کمپنی کی بھرپور توجہ نے اس کی مارکیٹ میں غالب پوزیشن برقرار رکھی ہوئی ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں انشورنس انڈسٹری مسلسل ترقی کر رہی ہے، یہ ضروری ہے کہ بیمہ کنندگان اپنی مصنوعات کو صارفین کے لیے مزید قابل رسائی بنانے اور صارفین کا اعتماد بڑھانے کے لیے اپنے اندرونی نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔