
کراچی: پاکستان میں کئی بڑی کمپنیاں اپنے شئیرز دوبارہ خریدنے کیلئے کوشاں ہیں کیونکہ ان کی مالیت گزشتہ دس سالوں کی کم ترین سطح تک گر چکی ہے۔
بلوم برگ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے ساڑھے 6 ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکج کی اگلی قسط کیلئے طویل ترین انتظار اور غیریقینی صورتحال کی وجہ سے مسلسل دیوالیے کے خطرات منڈلا رہے ہیں جس کے پیشِ نظر اکثر کمپنیاں اپنے شئیرز کی دوبارہ خریداری کی تگ و دو کر رہی ہیں۔
دو بڑی پاکستانی کمپنیوں لکی سیمنٹ اور حبیب بینک نے اپنے شئیرز کی دوبارہ خریداری کے منصوبوں کا اظہار کیا ہے جبکہ رپورٹ کے مطابق مزید پانچ کمپنیوں کی جانب سے بھی یہی قدم اٹھائے جانے کی توقع ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاشی صورتحال انتہائی خراب ہے اور ملک کو بیرونی قرضوں پر دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے آئی ایم ایف سے قرض کی اشد ضرورت ہے جبکہ سٹاک مارکیٹ کا کے ایس ای 100 انڈیکس 2008ء کے بعد کم ترین سطح تک گر چکا ہے اور درآمدی پابندیوں کی وجہ سے ملک میں زیادہ تر صنعتی یونٹس میں پیداواری عمل معطل ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈویلپمنٹ حبیب بینک کے مزید شیئرز خریدنے کا خواہاں
آئی جی آئی انویسٹمنٹس نے فارما کمپنی سنوفی پاکستان کے اکثریتی شئیرز خرید لیے
دو ٹیکسٹائل ملز کے شئیرز کی قیمتوں میں غیرمعمولی تیزی پر سٹاک ایکسچنیج کا نوٹس
انسائیٹ سکیورٹیز کے سی ای او زبیر غلام حسین کے مطابق کمپنیوں کی جانب سے شئیرز کی واپس خریداری کی جیسی لہر اَب اٹھی ہے ایسا رجحان پاکستانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا اور اس کے جاری رہنے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ لکی سیمنٹ تقریباََ تین کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے عوض اپنے 7.6 فیصد شئیرز خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ حبیب بینک کا سب سے بڑا حصہ دار شئیرز کی دوبارہ خریداری پر ساڑھے 3 ارب روپے خرچ کرنے کو تیار ہے۔ دونوں کمپنیوں کے شئیرز میں 7.5 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے لکی سیمنٹ کے خسارے میں 24 فیصد جبکہ حبیب بینک کے نقصانات میں 28 فیصد کمی آئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق مزید جن کمپنیوں کی جانب سے شئیرز کی واپس خریداری کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے اُن میں بینک الفلاح، میپل لیف سیمنٹ فیکٹری اور نیٹ سول ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔
مارچ 2023ء میں کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی درجہ بندی اس لیے کم کر دی تھی کیونکہ ملک مالیاتی وسائل کا بندوبست کرنے اور دیوالیے کے مسلسل بڑھتے ہوئے خطرات کو روکنے میں بظاہر ناکام نظر آ رہا تھا۔