اسلام آباد: وفاقی بورڈ برائے ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے رواں مالی سال 2022-23ء کے پہلے دس ماہ (جولائی تا اپریل) کے دوران مجموعی طور پر 5.62 کھرب روپے ٹیکس جمع کیا گیا۔
رواں سال کے پہلے دس ماہ کے دوران حکومت نے منی بجٹ لا کر کئی قسم کے نئے ٹیکس لاگو کیے ہیں۔ روپے کی قدر میں بھی کمی ہوئی ہے۔ ان دونوں عوامل کی بنا پر مجموعی ٹیکس آمدن میں اضافہ متوقع تھا تاہم ایف بی آر 6.02 کھرب روپے کا ہدف حاصل نہ کر سکا اور اسے 400 ارب روپے کمی کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ خلا اتنا بڑا ہے کہ اسے رواں مالی سال کے بقیہ دو ماہ میں پُر نہیں کیا جا سکتا۔ ایف بی آر ٹیکس وصولی کی اس رفتار سے 7.640 کھرب روپے کے سالانہ ٹیکس ہدف سے بھی محروم ہو جائے گا۔
چار فیصد کی منفی شرح نمو کے ساتھ یہ اپریل کے لیے 586 ارب روپے کے ماہانہ ہدف سے بھی 123 ارب روپے پیچھے رہا۔ ٹیکس وصولی میں اس قدر کمی حکومت کیلئے تشویش کا باعث ہونی چاہیے، بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب مہنگائی کی شرح 40 فیصد سے زائد ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گر چکی ہے جس کی وجہ سے درآمدی ٹیکس آمدن میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تاہم ٹیکس حکام کو امید ہے کہ وہ کم از کم 20 ارب روپے مزید حاصل کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ایف بی آر نے مرکزی بینک سے درخواست کی تھی کہ وہ ہفتے اور اتوار کو کمرشل بینکوں کو کھلے رہنے کا حکم دے مگر مجموعی ٹیکس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے شائد یہ اقدام کافی نہیں ہو گا۔
ایف بی آر کو رواں مالی سال کے بقیہ دو مہینوں میں 7.640 کھرب روپے کے سالانہ ٹیکس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اوسطاً 33 ارب روپے یومیہ کے حساب سے 2.02 کھرب روپے جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دس ماہ کے دوران اوسط یومیہ ٹیکس آمدن تقریباً 19 ارب روپے رہی۔
یہ بھی پڑھیے:
50 فیصد کمائی ٹیکسوں کی نذر، پاکستان کا تنخواہ دار طبقہ پس گیا!
کپاس کی پیداوار 40 سالوں کی کم ترین سطح پر، ٹیکسٹائل انڈسٹری پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے منی بجٹ میں آئی ایم ایف معاہدے کی شرائط پوری کرنے کیلئے 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے تھے۔ صرف تین ماہ قبل ایف بی آر نے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی سے تقریباً 180 ارب روپے کا مزید فائدہ ہو گا اور سالانہ ٹیکس ہدف کے حصول میں مدد ملے گی۔
حکومت رواں مالی سال کے دوران اَب تک تقریباً 800 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائد کر چکی ہے۔ گزشتہ سال جون میں بجٹ بناتے وقت ایف بی آر نے مہنگائی کی شرح 11.5 فیصد رکھی تھی جو فی الوقت 40 فیصد سے زائد ہے۔ تاہم یہ سب ٹیکس اہداف کے حصول کے لیے کافی ثابت نہیں ہوا۔
حکومت کیلئے ٹیکس شارٹ فال کا نتیجہ مزید قرض لینے کی صورت میں نکلے گا جس کے نتیجے میں شرح سود زیادہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو بجٹ بنانے میں مزید مشکلات ہونگی۔
حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرح بڑھا کر 18 فیصد اور کئی اشیاء پر 25 فیصد کر دی تھی مگر یہ بھی ناکافی ثابت ہوئی۔ ٹیکس حکام کو یہ بھی امید تھی کہ حکومت ماہانہ 5.1 ارب ڈالر تک کی درآمدات کی اجازت دے گی لیکن ایل سیز پر پابندیوں کی وجہ سے درآمدات کم رہیں جس کی وجہ سے ٹیکس آمدن بھی کم رہی۔
رواں مالی سال کے دس مہینوں کی 5.62 کھرب روپے ٹیکس آمدن گزشتہ مالی سال کے پہلے دس ماہ کی ٹیکس آمدن سے 762 ارب روپے یعنی 16 فیصد زیادہ ہے۔
دوسری جانب کسٹم ڈیوٹی کی وصولی مسلسل دسویں ماہ ہدف سے کم رہی۔ ایف بی آر نے جولائی تا اپریل کے دوران کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 750 ارب روپے وصول کیے جو ہدف سے 180 ارب روپے کم ہیں۔ یوں دس ماہ میں کسٹم ڈیوٹی کی وصولی بھی گزشتہ سال کی وصولیوں سے تقریباً 42 ارب روپے کم تھی۔ صرف اپریل میں کسٹمز ڈیوٹی کی وصولی ہدف سے 45 ارب روپے کم رہی۔
البتہ مالی سال 2023ء کے پہلے دس مہینوں میں انکم ٹیکس کی وصولی 2.5 کھرب روپے ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 758 ارب روپے یعنی 44 فیصد زیادہ ہے جو ناکامیوں کی طویل فہرست میں کامیابی کی واحد کہانی ہے۔
تاہم رواں مالی سال کے دس ماہ میں سیلز ٹیکس وصولی میں بھی کمی آئی اور تقریباً 2.1 کھرب روپے سیلز ٹیکس جمع ہو سکا جو ہدف سے 285 ارب روپے کم ہے۔ یہ ایک بڑی ناکامی تھی کیونکہ ایف بی آر 36 فیصد سے زیادہ مہنگائی کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا۔