یہ کہانی ہے پاکستان کی نقد آور فصلوں میں سے ایک کی جسے محض 15 سالوں سے بھی کم وقت میں تباہی سے دوچار کر دیا گیا۔
پاکستان کاٹن گروئرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کی طرف سے جاری کردہ حالیہ اعدادو شمار کے مطابق کپاس کی پیداوار گزشتہ 40 برس کی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے مگر یہ صورت حال کاٹن انڈسٹری کے ساتھ چند سالوں سے وابستہ افراد کیلئے حیران کن نہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں کپاس کی فصل طلب سے کم اور بین الاقوامی سطح پر غیر مسابقتی ہو گئی ہے۔ اس کی پیداوار 2005ء میں پیدا ہونے والی ایک کروڑ 40 لاکھ گانٹھوں کے مقابلے میں 2023ء میں 40 لاکھ 90 ہزار گانٹھوں تک کم ہو چکی ہے یعنی مجموعی طور پر 65 فیصد کم۔
کپاس جو ایک زمانے میں کاشت کاروں اور زرعی ماہرین کی محبوب فصل ہوا کرتی تھی، اس کی پیداوار میں 2000ء کے اواخر سے قابل ذکر حد تک کمی واقع ہوئی ہے جبکہ مصر جیسے مسابقتی ملک نے اس فصل پر توجہ دی اور وہ اس کی زیر کاشت رقبہ بڑھا رہا ہے۔
کپاس کی کم پیداوار کا منفی اثر کاشتکاروں کے علاوہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری پر بھی پڑا ہے۔ کپاس پر انحصار کرنے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں حصہ 21 فیصد اور جی ڈی پی میں 2 فیصد ہے۔ پیداوار میں کمی کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کا درآمدی کپاس پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔
2005ء اور 2020ء کے درمیان کپاس کی پیداوار میں تقریباً 35 فیصد کمی واقع ہوئی جو 2005ء میں تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ گانٹھوں سے 2020ء میں صرف 90 لاکھ گانٹھوں پر آ گئی۔ یہ مزید گر کر 2021ء میں 50 لاکھ 60 ہزار گانٹھوں پر آ گئی۔ 2022ء میں مختصر بحالی کے نتیجے میں 70 لاکھ 70 ہزار گانٹھیں پیدا ہوئیں اور اَب 2023ء میں یہ 40 لاکھ 90 ہزار گانٹھوں تک کم ہو چکی ہے جس کا مطلب ہے کہ پیداوار میں پچھلے 18 سالوں میں 65 فیصد تک مجموعی کمی ہو چکی ہے۔
تھوڑا سا پیچھے جائیں تو چند سال قبل بھی کپاس کی پیداوار اچھی تھی۔ 2017ء میں ایک کروڑ گانٹھیں اور 2018ء میں ایک کروڑ 10 لاکھ گانٹھیں ریکارڈ کی گئی۔ لیکن 2019ء میں یہ مزید بڑھنے کی بجائے کم ہو کر 90 لاکھ گانٹھوں تک آ گئی۔ اگلے دو سالوں میں پیدوار میں تیزی سے کمی دیکھی گئی۔ 2020ء میں یہ 80 لاکھ جبکہ 2021ء میں 50 لاکھ 60 ہزار گانٹھوں تک گر گئی ۔
کسانوں نے ایک عشرہ سے گنے جیسی نفع بخش فصل کی خاطر کپاس کو کاشت کرنا چھوڑ دیا ہے۔ 1991ء میں کپاس پاکستان بھر میں 60 لاکھ 60 ہزار ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی جبکہ 2005ء میں اس کا زیرِ کاشت رقبہ 70 لاکھ 90 ہزار ایکڑ تک بڑھ گیا مگر پھر یہ 2020ء میں محض 60 لاکھ 20 ہزار ایکڑ تک محدود ہو گئی جو ایک سنگین رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔
موسمی تغیرات نے پاکستان میں کپاس کے بیج کو کم مزاحم بنا دیا ہے اور اس کے ناکام ہونے کا امکان زیادہ ہو گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس بیج کو اُگانا متعدد کاشت کاروں کے لیے ایک بُرا کاروباری فیصلہ بن گیا ہے۔
کسانوں نے کپاس کی فصل کو کیوں چھوڑ دیا؟ خاص طور پر ایسے وقت میں جب مصر اور ویتنام جیسے ممالک، جن کے ساتھ پاکستان کا مقابلہ ہوا کرتا تھا، نے کپاس کے زیر کاشت رقبے میں اضافہ کیا ہے۔ اس کیلئے ہمیں 2008ء میں واپس جانا ہو گا جب پاکستان میں توانائی کا بحران آیا اور ٹیکسٹائل کی صنعت کو دھچکا لگا۔
2008ء تک پاکستان میں کپاس ایک اہم نقد آور فصل تھی۔ درحقیقت 2005ء میں کپاس واحد فصل تھی جس کیلئے جینیاتی طور پر ترمیم شدہ (جی ایم او) بیج متعارف کرائے گئے۔ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (IFPRI) کی 2021ء کی رپورٹ کے مطابق 1982ء سے 2008ء کے درمیان خام کپاس کی کھپت 7 فیصد کی سالانہ شرح نمو سے بڑھ کر ایک کروڑ 56 لاکھ گانٹھوں تک پہنچ گئی۔
تاہم 2007۔08ء کے درمیان عالمی کساد بازاری کے اثرات کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل کی صنعت کو مہنگی توانائی، روپے کی قدر میں کمی اور کاروباری لاگت میں اضافے کی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں کام کرنے والی ٹیکسٹائل ملوں کی تعداد 2009ء کے تقریباً 450 یونٹس سے کم ہو کر 2019ء میں 400 یونٹ رہ گئی۔ ٹیکسٹائل یونٹس کی تعداد میں کمی کی وجہ سے کپاس کی مقامی طلب میں بھی کمی واقع ہو گئی۔
کسان اور ٹیکسٹائل کی صنعت 2008ء کے مالیاتی بحران تک ایک دوسرے پر انحصار کر رہے تھے۔ کسان کا خیال تھا کہ وہ اس خوف کے بغیر فصل پیدا کرے گا کہ طلب کم ہو جائے گی اور حکومت کو امدادی قیمت کا اعلان کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی لیکن جب ٹیکسٹائل ملز بند ہونا شروع ہوئیں تو اس وقت کپاس کی پیداوار زیادہ تھی اور خریدار کم۔ ایک دو سالوں کے بعد کسانوں نے بھی کپاس کی کاشت کم کر دی جس سے پیداوار کم ہو گئی اور نتیجتاََ برآمدات متاثر ہوئیں۔
جب کسانوں کی کپاس میں دلچسپی ختم ہو رہی تھی، ملک میں کپاس پر تحقیق بھی بہت کم کی گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کپاس پیدا کرنے والے دیگر ممالک اپنی پیداوار بڑھانے کے لیے جدید ترین سیڈ ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے قابل ہو گئے جبکہ پاکستان پیچھے رہ گیا۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ دو دہائیاں قبل پاکستان کی کپاس کی عالمی سطح پر بہت زیادہ مانگ تھی۔
تاہم اِن 20 سالوں کے دوران بنگلہ دیش، ویت نام اور کمبوڈیا جیسے ممالک نے پاکستان سے آگے نکلنے کے لیے بہتر طریقے استعمال کیے۔ 2003ء میں جب پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات 8 ارب 30 کروڑ ڈالر تھیں، ویتنام کی ٹیکسٹائل برآمدات 3 ارب 87 کروڑ ڈالر اور بنگلہ دیش کی ساڑھے 5 ارب ڈالر تھی۔ اَب ویتنام 36 ارب 68 کروڑ ڈالر اور بنگلہ دیش 40 ارب 96 کروڑ ڈالر کی ٹیکسٹائل برآمدات کرتا ہے جبکہ پاکستان 25 ارب ڈالر تک پہنچنے کیلئے تگ و دو کر رہا ہے۔
پاکستان کے پیچھے رہ جانے کی کئی وجوہات ہیں۔ پاکستان کو ناصرف کپاس کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے بلکہ کپاس کے معیار کو بھی بہتر بنانا ہو گا۔ اس وقت پاکستانی کپاس دوسرے درجے کی سمجھی جاتی ہے اور اگر فصل کا معیار بہتر ہو جائے تو زیادہ قیمت پر اس کی طلب بھی زیادہ ہو گی۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ فصل کو بہتر بنانے سے پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فائدہ پہنچے گا ۔
لیکن یہ سب گزشتہ برس تبدیل ہو گیا۔ کپاس کی وہ فصل جو پاکستان میں 2021ء میں بوئی گئی اور 2022ء میں اس کی برداشت ہوئی، کو بالخصوص کورونا وبا کے دوران بین الاقوامی تجارت سے فائدہ ہوا۔ ہم نے دیکھا کہ کپاس کی فصل 2008ء سے زوال کا شکار ہے۔ 2015ء اور 2020ء کے درمیان بھی پیداوار میں واضح کمی آئی۔ اس کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری نے دعویٰ کیا کہ وہ مقامی کپاس پر انحصار کرنے کی بجائے درآمدی کپاس پر انحصار کرے گی۔ یہ کام خاص طور پر اُس وقت ہوا جب پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس دوسرے درجے کی سمجھی جانے لگی۔
لیکن جب کورونا میں سب کچھ بند ہو گیا اور مقامی صنعت کو معلوم ہوا کہ کپاس کی درآمد ممکن نہیں تو پاکستان میں کپاس کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ گزشتہ سال کپاس کی بین الاقوامی قیمتوں میں (روپے کے لحاظ سے) تقریباً 30 فیصد اضافہ ہوا۔ یکم جولائی 2021ء کو کپاس کی قیمت 12 ہزار 6 سو روپے سے رواں سال فروری کے وسط تک 18 ہزار روپے تک گئی۔ روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر نے نہ صرف پاکستانی ملز مالکان کے لیے درآمد کے اثرات کو دوگنا کر دیا بلکہ پیداوار کی حتمی لاگت کا حساب لگانا بھی ناممکن بنا دیا۔
مارچ 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا سے پہلے کپاس کی درآمد میں 30 دن لگتے تھے لیکن اب 120 دن سے زیادہ لگتے ہیں۔ ان حالات نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کا درآمدی کپاس پر انحصار کا دعوی بھی مسترد کر دیا اور اسے مقامی فصلوں کی قدر کرنے پر مجبور کر دیا۔ یوں ملک میں کپاس کی بحالی کا مرحلہ شروع ہو گیا کیونکہ کورونا کے پاکستان پر بہ نسبت کم اثرات مرتب ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ وقت کے ساتھ اوسط پیداوار میں اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ملتان) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر صغیر احمد کے حوالے سے بتایا گیا کہ 2020ء میں پنجاب میں اوسط پیداوار 15.68 مَن فی ایکڑ سے بڑھ کر 2021ء میں 19.62 مَن فی ایکڑ ہو گئی۔ سندھ میں یہ شرح اور بھی بہتر تھی، 30 مَن فی ایکڑ۔ اسی طرح قومی اوسط 25 مَن فی ایکڑ ریکارڈ کی گئی۔
پچھلے سال کسانوں کو ایک موقع ملا۔ کپاس کی مانگ زیادہ تھی اور اس کی زیادہ بوائی کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پیداوار میں اضافہ ہوا لیکن بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی گئی۔ پچھلے سال بھی ٹیکسٹائل انڈسٹری پیداوار میں اضافے سے زیادہ متاثر نہیں ہوئی۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مطابق مقامی کپاس طلب کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن جب تک ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
یہاں ایک اہم بات وہ معمولی بہتری ہے جو پچھلے تین سالوں میں دیکھی گئی ہے۔ اس سے پہلے تقریباً ایک دہائی تک پاکستان کی کپاس کی فصل متعدد بیماریوں کا شکار رہی۔ معیاری اور جدید جین ٹیکنالوجی کا فقدان ایک سنگین مسئلہ ہے جس نے پاکستان میں کپاس کی پیداواری صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں ٹڈی دل کے حملے اور موسمیاتی تبدیلی جیسے عوامل نے بھی مسائل کو جنم دیا ہے۔
چنانچہ کپاس کی تحقیق میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ رواں سال کپاس کی قیمت 5 ہزار روپے فی گانٹھ (40 کلو گرام) کی امدادی قیمت سے کافی زیادہ تھی لیکن اس امدادی قیمت کے جلد اعلان نے کسانوں کو اس فصل کو آگے بڑھانے کا اعتماد دیا۔ ان تمام عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان ایک بار پھر اپنے کپاس کے شاندار دنوں میں واپس جا سکتا ہے اور شاید اس طرح اپنی ٹیکسٹائل انڈسٹری اور برآمدات کو تقویت دے سکتا ہے۔
اس سال کی 40 لاکھ 90 ہزار گانٹھوں کا مطلب ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ڈیڑھ کروڑ گانٹھوں کی سالانہ کمی پوری کرنے کے لیے تقریباً ایک کروڑ گانٹھیں درآمد کرنا ہوں گی۔ پہلے ہی ٹیکسٹائل انڈسٹری جسے شدید درآمدی پابندیوں کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے، اس کی کھپت 80 لاکھ 80 ہزار گانٹھوں تک گر گئی، جو 20 سالوں میں سب سے کم ہے۔
ملک میں جاری معاشی بحران کی وجہ سے درآمدات کو کٹوتی کا سامنا ہے، 2022ء کا سال کاشت کاروں کو کپاس کی کاشت جاری رکھنے اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مقامی کپاس میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دینے کے لیے ایک بہترین وقت تھا۔ تاہم اس سال کی پیداوار بتاتی ہے کہ کپاس کی پیداوار میں مزید کمی کا امکان ہے۔ کتنی کمی ہو گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔