جدید ٹیکنالوجی کی بدولت امیر ہونے والے افراد پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بدل سکتے ہیں

374

لاہور: ٹیکنالوجی کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور اس کے استعمال سے پاکستان کے غریب طبقے کے نوجوان اپنے لیے بہتر ذرائع معاش پیدا کرکے معاشی خود مختاری کی راہ پر گامزن ہو رہے ہیں۔

ٹیکنالوجی کے مرہون منت جدید اور اختراعی سلوشنز اِن نوجوانوں کو مسائل پر قابو پانے اور روشن مستقبل کی تعمیر کے لیے مہارت فراہم کر رہے ہیں اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے پاکستان میں کروڑ پتی افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ای کامرس اپنی اہمیت منوا چکی ہے جس میں انٹرنیٹ تک رسائی کے ساتھ  کوئی بھی شخص بزنس مین بن سکتا ہے۔ دراز پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر احسان سایا کے مطابق ’’آپ کو آن لائن چیزیں فروخت کرنے کے لیے خاطر خواہ سرمائے کی ضرورت نہیں بلکہ محض انٹرنیٹ کنیکشن، ایک فون یا کمپیوٹر تک رسائی چاہیے اور اس کے ساتھ تحمل، دیانت، جذبے اور تحرک کی ضرورت ہے۔ آن لائن ملازمتیں اور کاروبار موجودہ مشکل دور میں ہر شخص کے لیے قابل عمل متبادل کے طور پر سامنے آئے ہیں۔‘‘

پاکستان میں پڑھے لکھے اور نئی ٹیکنالوجی کے علم سے آراستہ نوجوانوں کی بہتات ہے جو بطور فری لانسرز اپنی صلاحیتوں اور مہارت کا استعمال کرکے پیسے کما رہے ہیں یا اپنے آن لائن کاروبار چلا رہے ہیں ۔ وہ اپنے معمولات زندگی کو جاری و ساری رکھتے ہوئے کچھ وقت فری لانسنگ یا آن لائن بزنس کیلئے نکال کر باعزت روزی روٹی کما رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: 

کیا دبئی ٹیکنالوجی کا اگلا عالمی مرکز بننے جا رہا ہے؟

ٹیکنالوجی میں اگلی سپر پاور بننے کیلئے برطانیہ کو بھارت کی مدد درکار

اس وقت پاکستان بھر سے تقریباً ایک لاکھ فروخت کنندگان پلیٹ فارم پر رجسٹرڈ ہیں جن کی پچھلے تین سالوں میں اوسط آمدن میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ کئی عوامل ہیں جن میں سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ تک بڑھتی ہوئی رسائی بھی شامل ہے۔

معاشرے کے غریب طبقات سے ابھرنے والے ٹیکنالوجی سے لیس کروڑ پتیوں کا عروج ملک کے سیاسی منظر نامے کو بھی نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک بار جب وہ روزی روٹی جیسی بنیادی ضروریات کے بوجھ سے آزاد ہو جاتے ہیں تو سیاست میں ان کی شرکت مثبت تبدیلی لا سکتی ہے اور ملک کو ایک چھوٹی سی اشرافیہ کی گرفت سے آزاد کرا سکتی ہے۔

پاکستان کی نوجوان آبادی کی صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے دراز یونیورسٹی کو 2018ء میں شروع کیا گیا تھا تاکہ ملک بھر میں کاروباری تعلیم فراہم کی جا سکے، چاہے مقام کوئی بھی ہو۔ ورچوئل یونیورسٹی ایسے کورسز پیش کرتی ہے جو فروخت کنندگان کو ان کے کاروبار قائم کرنے کے لیے قدم قدم پر رہنمائی فراہم کرتے ہیں اور ہر ماہ تقریباً پانچ ہزار سیلرز کو تربیت دی جاتی ہے۔

تاہم ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ تک رسائی پاکستان کے بہت سے حصوں بالخصوص دیہی علاقوں میں محدود ہے۔ مزید برآں بہت سے افراد ایسے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہنر اور تعلیم سے محروم ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت اور نجی اداروں کے لیے سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی تک رسائی کو بڑھانے اور ایسے افراد کو تربیت فراہم کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ضروری ہے جو ان مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

’’سی گلوبل‘‘ (Si Global) کے سی ای او نعمان احمد خبردار کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی مسائل کا حل یا بیماری کا علاج نہیں ہے۔ اگرچہ اس سے مواصلات اور نقل و حمل جیسی چیزوں میں مدد مل سکتی ہے لیکن اس میں خرابیاں بھی ہیں۔

ان چیلنجز کے باوجود اقتصادی ترقی اور لوگوں کو غربت سے نکالنے کے لیے ٹیکنالوجی کی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے آپ کو متوسط ​​طبقے سے نکال کر دولت کے لحاط سے بالا دست طبقے میں شامل کر رہے ہیں۔ پاکستان یقیناََ ترقی کر کے روشن مستقبل حاصل کر سکتا ہے لیکن اس کیلئے ٹیکنالوجی کی طاقت کو بروئے کار لانا پڑے گا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here