بھارت میں مینوفیکچرنگ کے بعد ایپل کا ریٹیل سٹور بھی کھل گیا، پاکستان کیا سیکھ سکتا ہے؟

441

لاہور: ایپل نے بھارت میں اپنا پہلا ریٹیل سٹور کھول دیا ہے جس کا افتتاح کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ٹِم کُک (Tim Cook) نے کیا۔

افتتاحی تقریب میں تین سو چنیدہ افراد موجود تھے جو اس تقریب کو دیکھنے کیلئے ملک بھر سے جمع ہوئے تھے۔ ممبئی میں ایپل سٹور ریلائنس کے جیو ورلڈ ڈرائیو مال میں کھولا گیا جبکہ 20 اپریل کو دارالحکومت دہلی میں دوسرا سٹور کھولا جائے گا۔

بھارت میں ریٹیل سٹورز کھولنے میں رکاوٹوں کے باوجود ایپل کی تمام مصنوعات مختلف ای کامرس ویب سائٹس اور کمپنی کی جانب سے بھارت میں 2020ء میں شروع کیے گئے آن لائن سٹور پر صارفین کیلئے دستیاب تھیں۔

ایپل کا ہندوستانی سمارٹ فون مارکیٹ میں صرف 3 فیصد حصہ ہے تاہم پھر بھی وہ اپنی مینوفیکچرنگ کو بھارت میں وسعت دینے کیلئے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں رواں ہفتے ایپل کے سی ای او ٹِم کُک وزیراعظم نریندر مودی اور نائب وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔

کمپنی اپنی مصنوعات بمشول آئی فون بھارت میں تائیوان کے کنٹریکٹ الیکٹرانکس مینوفیکچررز فوکس کون (Foxconn) اور وِسٹرون کارپوریشن (Wistron Corp) سے تیار کروا رہی ہے جبکہ آئندہ آئی پیڈز اور ائیر پوڈز بھی بھارت میں تیار کروانے کی خواہاں ہے۔

گو کہ ہندوستانی صارفین تیزی سے اپنے سمارٹ فونز کو بہتر فیچرز والے ماڈلز میں اَپ گریڈ کر رہے ہیں لیکن پھر بھی ایپل کے مہنگے آئی فون مخصوص افراد کیلئے ہی قابلِ خرید ہیں۔ اس کے باوجود ایپل سٹور کی افتتاحی تقریب میں بھارتی صارفین نے کافی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔

رواں سال کے اوائل میں ریاست کرناٹک کے وزیراعلیٰ باسواراج ایس بومائی نے اعلان کیا تھا کہ ایپل چین پر انحصار کم کرنے کیلئے بھارت میں نیا آئی فون پلانٹ لگانا چاہتی ہے کیونکہ چین میں مینوفیکچرنگ سے متعلق درپیش مسائل، کورونا کے حوالے سے سخت پابندیوں اور امریکا کے ساتھ سفارتی کشیدگی کے باعث کمپنی کو سپلائی چین کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایپل کی مذکورہ فیکٹری کرناٹک میں 300 ایکڑ کے رقبے پر لگائی جائے گی جو بھارتی ٹیک ورکرز کیلئے ایک لاکھ نوکریاں پیدا کرے گی۔

تائیوانی الیکٹرونکس میکر فوکس کون نے بھی، جو 2019ء سے بھارت میں ایپل فون بنا رہی ہے، جنوبی ریاست تلنگانہ میں الیکٹرانک مینوفیکچرنگ یونٹ قائم کرنے کیلئے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ تائیوان کی دو دیگر کمپنیاں ویسٹرون اور پیگاٹرون پہلے ہی بھارت میں ایپل کی مصنوعات تیار کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: 

کار مکینک کا بیٹا جس نے ایپل کی بنیاد رکھی 

چینی سمارٹ فون کمپنی جس نے ایپل اور سام سنگ کی چھٹی کروا دی

ایپل کی بھارت میں توسیع دراصل وزیراعظم نریندر مودی کی ’میک اِن انڈیا‘ حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد غیرملکی کمپنیوں کو بھارت میں سرمایہ کاری پر راغب کرنا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ بھارتی صارفین کو نسبتاً سستے آئی فون دستیاب ہوں گے ہیں۔ یہ بھارت اور پاکستان میں آئی فون کی قیمتوں کے فرق سے بھی واضح ہے۔ اس سے مقامی سطح پر مصنوعات بنانے (localization) کے فوائد بھی اجاگر ہوتے ہیں۔

تاہم بھارتیوں کو توقع نہیں ہے کہ دیگر عوامل کی وجہ سے ایپل مصنوعات کی قیمتیں کم ہوں گی۔ بھارت میں آئی فون 14 کی تیاری کے نتیجے میں درآمدی ڈیوٹی میں 20 فیصد کمی متوقع ہے۔ اس سے ممکنہ طور پر مستقبل میں آئی فون کی قیمتوں میں کمی ہو گی تاہم اس بات کا قوی امکان اس لیے نہیں کیونکہ ایپل کی تاریخ ہے کہ وہ مقامی مارکیٹوں میں قیمتیں کم نہیں کرتی۔ جیسا کہ آئی فون 12 اور آئی فون 13 کے حوالے سے دیکھا گیا جبکہ دونوں فون بھارت میں ہی تیار کیے گئے تھے۔ اس کے بجائے کمپنی نے ایمازون اور فلپ کارٹ جیسی آن لائن ویب سائٹس پر رعایتی قیمت پر آئی فون فروخت کرنے کیلئے بینکوں کے ساتھ شراکت داری کر لی۔

چونکہ آئی فون 14 کے پرزے درآمد کر کے اس کو بھارت میں صرف جوڑا (assemble) جائے گا۔ اس لیے پیداواری لاگت میں نمایاں کمی کا امکان نہیں۔ لہٰذا قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور اس حوالے سے کمپنی کی جانب سے بھی تصدیق نہیں کی گئی۔

دوسری جانب پاکستانی ہیں جو آئی فون 14 کی بے تحاشہ قیمت ادا کرتے ہیں جس میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے درآمدی ڈیوٹی اور دیگر اضافی ٹیکس شامل ہوتے ہیں۔

رواں مالی سال کے دوران پاکستانی حکومت کی جانب سے درآمدی پابندیوں اور بے تحاشہ ٹیکسوں کی وجہ سے سمارٹ فونز کی درآمد میں 71 فیصد کمی آئی ہے۔ رواں مالی سال 2022-23ء کے ابتدائی 9 ماہ (جولائی تا مارچ) میں پاکستانیوں نے 46 کروڑ 27 لاکھ ڈالر کے سمارٹ فون درآمد کیے جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں ایک ارب 59 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے سمارٹ فون درآمد کیے گئے تھے۔

پاکستان ایک مدت سے سمارٹ فون بنانے والی کمپنیوں کو مقامی طور پر مینوفیکچرنگ کرنے پر آمادہ کر رہا ہے اور اس ضمن میں سام سنگ سمیت کچھ چینی کمپنیوں نے مقامی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کر کے سمارٹ فون مینوفیکچرنگ شروع کی تھی تاہم خراب معاشی حالات، زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر اور بیرون ملک سے خام منگوانے کیلئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کے اجراء میں رکاوٹوں کے باعث اکثر کمپنیوں کو اپنے یونٹس بند کرنا پڑے۔

پاکستان مقامی سطح پر سمارٹ فونز کی تیاری کو فروغ دے کر سالانہ تقریباََ 3 ارب ڈالر کی بچت کر سکتا ہے جبکہ درآمدی ڈیوٹیز سے چھٹکارہ ملنے کی وجہ سے پاکستانی صارفین کو سمارٹ فونز سستے داموں دستیاب ہوں گے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here