بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی صوبوں کو حوالگی، آخر مشکل سیاسی فیصلہ کرنا ہی پڑے گا

499

پاکستان میں 10 بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں ہیں جن میں سے 9 وفاقی حکومت جبکہ ایک کے الیکٹرک نجی کنٹرول میں ہے۔ ان سب کمپنیوں کو مالی سال 2021-22ء میں مجموعی طور پر 170 ارب روپے نقصان ہوا۔

ظاہر ہے یہ نقصان قومی خزانے کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں مالیاتی خسارے میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے حالیہ نقصانات پاکستان کی جی ڈی پی کا 1.4 فیصد سے زیادہ ہیں۔

جیسے جیسے مالیاتی خسارہ بڑھتا ہے، اس کی قیمت یا تو ٹیکس دہندگان کو اضافی ٹیکس کے ذریعے چُکانا پڑتی ہے یا پھر عوام مہنگائی کی صورت اسے برداشت کرتے ہیں کیوںکہ حکومت خسارہ کم کرنے کیلئے زیادہ نوٹ چھاپتی ہے جس سے مہنگائی اور بڑھ جاتی ہے۔

اوسطاً ڈسٹری بیوشن کے دوران 17.5 فیصد بجلی ضائع ہو جاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ ڈسٹری بیوشن کے دوران ہر سو کلو واٹ (یونٹ) پر تقریباً 17.5 یونٹ یا تو ناکارہ انفراسٹرکچر کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں یا پھر اُن کی قیمت ادا نہیں کی جاتی۔ ڈسٹری بیوشن کے دوران ہونے والا یہ نقصان بالآخر صارفین کیلئے مہنگی بجلی کی صورت سامنے آتا ہے۔

اس تصویر کو ذرا بڑا کر کے دیکھیں تو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی سروس ڈلیوری ایک صوبے میں رہتے ہوئے یا تو ایک شہر یا متعدد اضلاع میں پھیلی ہوئی ہے جبکہ اس سارے نظام کو چلانے کا ڈھانچہ صرف وفاقی سطح پر موجود ہے جس کی وجہ سے ذمہ داریوں اور مراعات کا نظام بھی کافی پیچیدہ ہے۔ صوبے بجلی کی ڈسٹری بیوشن میں کچھ غلط اقدام دیکھ کر بھی خاموش رہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اسے روکنے کے اختیارات نہیں۔ چونکہ مالی نقصانات وفاق کو برداشت کرنا پڑتے ہیں، اس لیے صوبے کارکردگی کو بہتر بنانے کا تردد کیوں کریں۔

تقسیم کار کمپنیوں کو وفاق سے صوبائی کنٹرول میں دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ صوبے نفع و نقصان میں حصہ دار ہوں گے۔ اس سے کارکردگی کو بہتر بنانے کی ترغیب اور خدمات کی فراہمی دونوں براہ راست مالی نتائج کے ساتھ منسلک ہو جائیں گے۔ زیادہ موثر طریقے سے چلنے والی بجلی کی تقسیم کار کمپنی صوبائی سطح پر بہتر نتائج  دینے کا سبب بنے گی جبکہ صوبے کی مالی حالت پر بھی براہ راست اثر پڑے گا۔

اس سے وفاقی حکومت کو بھاری مالی نقصانات سے بھی نجات ملے گی جس کا انتظام صوبے اپنے وسائل سے آئین کی 18ویں ترمیم کے مطابق کریں گے جس میں بہتر خدمات کی فراہمی اور بہتر نتائج  کے لیے وفاق سے صوبوں کو خدمات کی منتقلی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی صوبوں کو منتقلی کے لیے ابتدائی طور پر کافی حد تک تنظیم نو کی کوششیں شامل ہوں گی۔ افرادی قوت کتنی رکھنی ہے اور کتنی کو فارغ کرنا ہے یہ سیاسی طور پر ایک مشکل فیصلہ ہو گا۔ لیکن ایسے مشکل فیصلے نہ کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ تقسیم کار کمپنیوں کی بحالی کی طرف پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکا۔ نتیجتاََ نقصانات میں اضافہ ہی ہو گا جو اَب صوبوں کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ اس طرح کے نقصانات سے بچنے کے لیے اداروں کو جنگی بنیادوں پر بحال کرنا بہت ضروری ہو گا۔

اگلا مرحلہ بجلی کی تقسیم کے بنیادی ڈھانچے کی دیکھ بھال اور ترقی میں سرمایہ کاری کرنا ہو گا جس کے لیے بھاری سرمائے کی ضرورت ہو گی۔ صوبے سرکاری خزانے سے پیسہ لیے بغیر بنیادی ڈھانچے کو ترقی دینے کے لیے پبلک نجی شعبے کے ساتھ اشتراک یا پھر مکمل نجکاری کا راستہ اپنا سکتے ہیں اور مخصوص اہداف پر مبنی کارکردگی میں بہتری کے اہداف رکھتے ہوئے اداروں کو تنظیم نو کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ اسی طرف بڑھنے کے لیے کافی سخت سیاسی فیصلے کرنا پڑیں  گے مگر ایک بار کڑوی گولی نگلنے سے آنے والے دنوں میں کئی بڑے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے اور نقصانات کو کم یا ختم کیا جا سکتا ہے۔

وفاق پہلے ہی بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے اور توانائی کے حد سے زیادہ اخراجات کے دباؤ میں ہے۔ اَب بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے انتطامی امور میں بہتری لا کر اور ان کی تنظیم نو کرکے ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت صرف سخت سیاسی فیصلہ لینے کی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here