لاہور: ہیومن رائٹس واچ نے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (روڈا) کی جانب سے دریائے راوی کے کنارے نیا شہر بسانے کے حوالے سے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِس منصوبے کی خاطر زبردستی ہزاروں کسانوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی وکالت کرنے والی بین الاقوامی تنظیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکومت کو ماحولیات کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے اور نوآبادیاتی دور کے اُن قوانین کو تبدیل کرنا چاہیے جو حکام کو زمین کے حصول کیلئے لامحدود اختیارات دیتے ہیں۔
راوی ریور فرنٹ پروجیکٹ گزشتہ کچھ سال سے متنازعہ چلا آ رہا ہے۔ فیروز والا کے علاقہ میں تقریباََ 4 ہزار ایکڑ زرخیز زرعی زمین اس منصوبے کی زد میں آ رہی ہے جو براہ راست راوی سے سیراب ہوتی ہے۔ یہاں امرود کے باغات، مکئی، گندم، کدو اور دیگر فصلیں اور سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔
لیکن روڈا کے لئے یہ راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کا فیز وَن ہے۔ اتھارٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین قانونی طور پر حاصل کی گئی ہے اور ان کے قبضے میں ہے، اب وہ جیسے چاہیں اس کا استعمال کریں۔
دریائے راوی کے کنارے ریور فرنٹ پروجیکٹ کا آئیڈیا نیا نہیں۔ یہ پہلی بار 2006ء میں سامنے آیا تھا اور 2013ء مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اس کی فزیبلٹی سٹڈی کی گئی تھی۔
بنیادی طور پر اس کا مقصد ایک نیا شہر بسانا ہے جو ایک لاکھ 2 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے کا حامل اسلام آباد کے بعد پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا پلان کے تحت بنایا گیا شہر ہو گا جہاں ڈیڑھ کروڑ لوگ رہ سکیں گے۔
اس منصوبے کا سنگ بنیاد 2019ء میں رکھا گیا۔ قانون سازی کرکے روڈا نام کا ادارہ قائم کیا گیا جو لاہور کے کسی انتطامی ادارے کے ماتحت نہیں بلکہ مکمل بااختیار ہے۔ حتیٰ کہ روڈا کے ملازمین کو قانونی کارروائیوں سے بھی استثنیٰ فراہم کیا گیا ہے اور کوئی عدالت یا اتھارٹی مذکورہ قانون کے تحت کی گئی کسی بھی کارروائی کی قانونی حیثیت پر سوال نہیں اٹھا سکتی۔
اپنے قیام کے بعد روڈا جلد ہی قانونی حدود سے تجاوز کرنے لگی۔ 2021ء کے اوائل تک، جب منصوبے کیلئے اراضی کا حصول ابتدائی مراحل میں تھا، مشکلات پیدا ہونے لگیں۔ مقامی لوگوں نے اپنی زمینیں فروخت کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد روڈا نے اعلان کیا کہ وہ زبردستی زمینیں حاصل کرے گی جس کی آرٹیکل 4 اس کو اجازت دیتا ہے۔
معاملہ عدالت میں چلا گیا۔ جنوری 2022ء میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے 298 صفحات پر مشتمل ایک طویل فیصلے میں منصوبے کو اس بنیاد پر غیر آئینی قرار دے دیا کہ اس میں ماسٹر پلان کی کمی تھی۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ روڈا قانون کے مطابق ماسٹر پلان تیار کرنے میں ناکام رہا۔ لاہور اور شیخوپورہ میں راوی اربن ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ کے لیے زرعی اراضی خریدنے کیلئے مناسب طریقہ کار نہیں اپنایا گیا۔ اس لیے عدالت نے روڈا آرڈیننس کے سیکشن 4 میں ترمیم کے ذریعے اراضی حاصل کرنے کے عمل کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ یوں روڈا کو مذکورہ منصوبے کیلئے زمین کے حصول سے روک دیا گیا۔
اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے منصوبے کی جگہ کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ پنجاب حکومت لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔ فروری 2022ء میں سپریم کورٹ نے دس روزہ سماعت کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے تفصیلی فیصلے کو مسترد کر دیا۔
سپریم کورٹ کے دو ججوں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی نے روڈا کو پہلے سے خریدی گئی زمینوں پر کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی البتہ اسے ایسی زمین پر کام سے روک دیا جو پہلے خریدی نہیں گئی اور اس کی ادائیگی نہیں کی گئی۔
اس نئے شہر کا بظاہر مقصد تو دریا پر بیراج بنا کر راوی کو بحال کرنا ہے لیکن ماحویات کے ماہرین اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ اس کا نتیجہ ماحولیات کی تباہی کی صورت نکلے گا۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریشیا گوسمین کہتی ہیں ’’پنجاب کے صوبائی حکام نے علاقے کے کسانوں کو اُن کے گھروں اور روزگار سے محروم کرنے کے لیے ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں۔ حالانکہ حکومت کو یقینی بنانا چاہیے کہ سرکاری منصوبے کی وجہ سے ماحولیات کو نقصان نہ پہنچے، سیلاب کا خطرہ پیدا نہ ہو، نقل مکانی نہ ہو اور لوگوں کے روزگار کا نقصان کم از کم ہو۔‘‘
ہیومن رائٹس واچ نے نشاندہی کی کہ کس طرح مذکورہ منصوبے کے تحت دریائے راوی کے بہاؤ میں کی گئی تبدیلیاں سیلاب کے خطرے کو بڑھا سکتی ہیں۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی لاہور کنزرویشن سوسائٹی کے تحقیقی نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے منصوبے کو ماحولیاتی اور مالی طور پر ناقابل عمل قرار دیا ہے کہ دریا کے بہائو میں تبدیلیاں ماحولیاتی طور پر غیر پائیدار ثابت ہوں گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دریا پر بیراجوں اور ڈیموں کی تعمیر اور کھیتوں کی جگہ پختہ سڑکیں اور عمارتیں بنانے سے دریا میں پانی کی سطح بڑھ سکتی ہے اور ممکنہ طور پر سیلاب آ سکتا ہے۔