پاکستان کو متبادل فنانسنگ ذرائع کی ضرورت پڑ سکتی ہے: رپورٹ

پاکستان اور تیونس میں آئی ایم ایف پروگرام کو حتمی شکل دینا ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے ایک اہم قدم ہو گا

252
dollar-reaches-rs285-as-pakistani-rupee-in-free-fall

لاہور: بلند ترین شرح سود اور بین الاقوامی سطح پر شرح نمو (growth rate) میں کمی دو ایسے عوامل ہیں جو مشترکہ طور پر ابھرتی ہوئی معیشتوں کیلئے آئندہ برس قرضوں کا بندوبست کرنے کے حوالے سے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

بہت سی کمزور معیشتوں نے کووڈ 19 کی وبا اور یوکرین میں جنگ کے نتیجے میں کثیر الجہتی اور دو طرفہ قرض دہندگان کی مالی امداد کے ساتھ اپنی معاشی مشکلات پر قابو پایا لیکن ایمرجنگ مارکیٹس کے بین الاقوامی بانڈز پر ادائیگیاں 2024ء میں مجموعی طور پر 30 ارب ڈالر ہوں گی جو رواں سال کے باقی ماندہ 8.4 ارب ڈالر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ خطرے کی لپیٹ میں زیادہ آسانی سے آ جانے والے ممالک کو اگر قرض دہندہ ادارے دوبارہ قرضے جاری نہیں کرتے تو اُن کا معاملہ مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی کی ایک رپورٹ میں عالمی معاشی امور پر پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان، تیونس اور کینیا جیسے ملکوں کو دوبارہ قرضے نہ ملنے کی صورت میں متبادل مالی ذرائع تلاش کرنا پڑیں گے۔ ماہرین کو کینیا کے 2 ارب ڈالر کے بانڈز کی ری فنانسنگ کے بارے میں بھی خدشات ہیں جن کی مدت جون 2024ء میں پوری ہو جائےگی۔ ان بانڈز میں سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کاروں کو اس حوالے سے کافی تشویش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرض میں دبے کینیا جیسے ملک کو متبادل حل تلاش کرنا ہو گا یعنی یا تو آئی ایم ایف کا پختہ اعتماد حاصل کرنا ہو گا یا پھر ایک ارب ڈالر کا کسی دوسرے ذریعے سے اجراء۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان اور تیونس میں آئی ایم ایف پروگرام کو حتمی شکل دینا ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے ایک اہم قدم ہو گا کیونکہ اس سے دو طرفہ اور کثیر الجہتی فنانسنگ کھل جائے گی۔ واضح رہے کہ 2024ء کے لیے پاکستان کی ری فنانسنگ کی ضروریات اس کے زرمبالہ ذخائر کا 12 فیصد ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here