لاہور: پاکستان ایلومینیم بیوریج کینز لمیٹڈ (پی اے بی سی) کا سالانہ اجلاس 28 اپریل کو ہو گا۔ عام طور پر پاکستان سٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کو بھیجا جانے والا ایسے اجلاس کا مراسلہ کچھ خاص اہم نہیں ہوتا۔
لیکن پی اے بی سی کے شیئر ہولڈرز کا یہ اجلاس بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ایلومینیم کین بنانے والی واحد پاکستانی کمپنی ہے جو پاکستان اور افغانستان میں کاربونیٹڈ ڈرنکس بنانے والی کمپنیوں کو کین فراہم کرتی ہے۔ پیپسی اور کوکا کولا جیسے بڑے برانڈز اس کے گاہک ہیں۔
پی اے بی سی کو شروع ہوئے محض 6 سال ہوئے ہیں۔ اکتوبر 2022ء میں کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ وہ پیداواری صلاحیت کو 26 فیصد تک بڑھا کر سالانہ 70 کروڑ سے 95 کروڑ کین بنائے گی۔
لیکن یہ نسبتاً نئی کمپنی اتنی تیزی سے ترقی کیسے کر رہی ہے؟ دراصل 2017 میں جب پی اے بی سی قائم ہوئی تب تک پاکستان میں کسی کو بھی ایلومینیم کین کا کاروبار شروع کرنے کا خیال نہیں آیا تھا اور اب یہ اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ مارکیٹ میں دوسروں کیلئے شاید گنجائش نہیں بچی۔
پاکستان میں 50ء کی دہائی سے سافٹ ڈرنکس شیشے کی بوتلوں میں دستیاب تھیں۔ 1970ء کے بعد ایلومینیم کین میں صرف درآمدی سافٹ ڈرنکس ملتی تھیں۔ 1990ء کے بعد پاکستان میں ایلومینیم کین میں ڈرنکس بھرنے والی فیکٹریاں قائم ہوئیں۔
ایلومینیم کین کی مقامی پیداوار سافٹ ڈرنکس متعارف ہونے کے تقریباً 60 سال بعد 2017ء میں شروع ہوئی جو پاکستان ایلومینیم بیوریج کین لمیٹڈ نے شروع کی۔ کمپنی مسلسل منافع کما رہی ہے۔ 2020ء میں اس نے آئی پی او کے ذریعے 26 فیصد شئیرز کی فروخت سے 3 ارب 30 کروڑ روپے جمع کرنے کا منصوبہ بنایا۔
2017ء میں پی اے بی سی کی جانب سے ایلومینیم کین بنانے سے قبل پاکستان اور افغانستان میں سافٹ ڈرنکس کیلئے مہنگی درآمدی کین پر انحصار کیا جاتا تھا۔ اب یہ کمپنی تمام بڑی مشروب ساز کمپنیوں بشمول پیپسی اور کوکا کولا کو کین فراہم کرتی ہے۔
2020ء میں اس نے کُل سیلز کا 35 فیصد افغانستان کو فروخت کیا۔ پہلے تین سال تک اس کی آمدن سالانہ تقریباََ 18 فیصد کی شرح سے بڑھتی رہی اور 2020ء میں اسے 61 کروڑ روپے خالص منافع حاصل ہوا جو 2019ء کے مقابلے میں 314 فیصد زیادہ تھا۔
کمپنی کو ترقی کرنے کیلئے سٹریٹجک لابنگ سے کافی مدد ملی۔ مثال کے طور پر 2017ء میں حکومتِ پاکستان نے سری لنکا سے آزادانہ تجارتی معاہدہ ہونے کے باوجود ایلومینیم کین کی درآمد پر 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگا دی جس کا فائدہ پی اے بی سی کو ہوا۔ ذرائع کے مطابق سابق چیئرمین ایف بی آر عبداللہ یوسف نے پی اے بی سی کیلئے لابنگ میں اہم کردار ادا کیا۔
جیسا کہ نظر آ رہا ہے کہ کمپنی کی پیداواری صلاحیت 70 کروڑ کین ہے جسے وہ 95 کروڑ کین تک لے جانا چاہتی ہے۔ کمپنی کی دستیاب مالیاتی رپورٹ کے مطابق سال 2022 کے پہلے نو ماہ کے دوران اس کی نیٹ سیلز 5 ارب روپے سے بڑھ کر 10 ارب 85 کروڑ روپے ہو گئیں جو 2021ء کی اسی مدت سے 88.79 فیصد زیادہ رہیں۔
مذکورہ مدت کے دوران کمپنی کا مجموعی منافع 34.11 فیصد رہا جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران 34.92 فیصد تھا۔ بعد از ٹیکس منافع ایک ارب 27 کروڑ 40 لاکھ روپے بڑھ کر دو ارب 46 کروڑ 80 لاکھ روپے ہو گیا جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 106 فیصد زیادہ ہے۔
گزشتہ سال جون میں پی اے بی سی نے 49 روپے فی شیئر کی قیمت پر 9 کروڑ 40 لاکھ شیئرز کی پیشکش کی جس سے کمپنی کو 4 ارب 60 کروڑ روپے آمدن ہوئی جو 35 روپے فی شیئر کی فلور پرائس سے 40 فیصد زیادہ تھی جبکہ کمپنی کا منصوبہ تین ارب 30 کروڑ جمع کرنے کا تھا۔