لاہور: پاکستانی ایکسپورٹرز نے سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی اُن پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جو اُن کے خیال میں ملکی برآمدات کو ممکنہ طور پر آدھا کر دیں گی۔
عام طور پر جب بھی کوئی چیز بیرون ملک برآمد کی جاتی ہے تو اس کی ادائیگی غیرملکی کرنسی میں یا پاکستانی روپوں میں کی جاتی ہے، اس عمل کو رئیلائزیشن (realization) کہا جاتا ہے تاہم پاکستان کی معاشی ابتری اور روپے کی بے قدری کو دیکھتے ہوئے مرکزی بینک نے محسوس کیا ہے کہ کچھ ایکسپورٹرز اپنی رقم بیرون ملک ڈالرز میں اِس امید پر رکھ رہے ہیں کہ جب پاکستان میں ڈالر کی قدر اوپر جائے گی تو انہیں ڈالر ملک کے اندر لانے کا زیادہ فائدہ ہو گا۔
سٹیٹ بینک نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کے اندر ایکسپورٹرز کو اپنے ڈالر روپے میں تبدیل کر کے پاکستان میں لانا ہوتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو سٹیٹ بینک جرمانہ کرتا ہے۔
رواں سال 31 مارچ کو سٹیٹ بینک نے ایک سرکلر جاری کیا تھا جس میں کہا گیا کہ جو ایکسپورٹرز اپنی برآمدی رقم کو روپے میں تبدیل کرکے 30 اپریل تک پاکستان واپس لائیں گے، انہیں کسی قسم کا جرمانہ نہیں ہو گا تاہم اس سے تاخیر کرنے والوں کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
ایکسپورٹرز نے سٹیٹ بینک کے اس حکم پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایل سی سی آئی) کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک برآمدات مخالف قوانین منظور کر رہا ہے جن کی وجہ سے خدشہ ہے کہ برآمدات آدھی رہ جائیں گی۔
ایک بیان میں لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ سٹیٹ بینک کا یہ دعویٰ، کہ ایکسپورٹرز اپنا پیسہ بیرون ملک جمع کر رہے ہیں، سراسر غلط ہے اور یہ غلط مفروضہ پالیسیوں پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
سابق صدر لاہور چیمبر شاہد حسن شیخ کی قیادت میں گوشت، قالین، آٹو، زراعت، چمڑے اور ٹیکسٹائل سمیت مختلف شعبوں کے ایکسپورٹرز نے سٹیٹ بینک کے جاری کردہ مراسلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اس کے ساتھ انہوں نے اپنا نکتہ نظر بھی بیان کیا کہ تمام برآمدات ایک جیسی نہیں ہوتیں، کچھ کو وصولی کے لیے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ ہر برآمدی شعبے کی اپنی مخصوص خصوصیات ہیں، کچھ بہت زیادہ ویلیو ایڈڈ ہیں اور ان کی شیلف لائف لمبی ہوتی ہے۔ تاہم کچھ ایکسپورٹرز ایسی چیزیں برآمد کر رہے ہیں جن کی شیلف لائف کم ہوتی ہے۔ ہر چیز کیلئے ادائیگیوں کا بھی الگ نظام ہے۔
لاہور چیمدر کے صدر کاشف انور نے کہا کہ سٹیٹ بینک کے سرکلر کے مطابق برآمدی رقم کو ملک میں لانے میں تاخیر کی صورت آمدن پر 3 فیصد سے 9 فیصد تک جرمانہ ہو گا۔ سٹیٹ بینک کو چاہیے کہ ایسی پالیسی متعلقہ شعبوں کے ایکسپورٹرز کی مشاورت سے تشکیل دے۔
صدر لاہور چیمبر کے خیال میں سٹیٹ بینک کے اس اقدام سے ایکسپورٹرز پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جو کاروبار کی لاگت میں اضافے کی وجہ سے پہلے ہی کئی قسم کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدام مکمل طور پر غیر منصفانہ ہے کیونکہ اکثر ایسے حالات کی وجہ سے تاخیر ہوتی ہے جو ایکسپورٹرز کے کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں۔ اس قسم کا نوٹیفکیشن بالآخر بین الاقوامی مارکیٹ میں ہماری برآمدات کی مسابقت کو متاثر کرے گا۔
انہوں نے سٹیٹ بینک سے درخواست کی کہ وہ برآمدات کے بہترین مفاد میں اس اقدام پر نظرثانی کرے کیونکہ ہر برآمدی شعبے کو الگ الگ مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ سیلز ٹیکس ریفنڈز، کسٹم ریفنڈ اور انکریمنٹل فنڈز بھی جلد از جلد جاری کیے جانے چاہیے۔