لاہور ہائیکورٹ کا غیرمنقولہ جائیداد پر ٹیکس ختم، رئیل اسٹیٹ بزنس کو بڑھاوا ملے گا

انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ء کے سیکشن 7 ای کے تحت غیر منقولہ جائیداد کی مارکیٹ ویلیو کو بطور آمدن لیتے ہوئے قانون سازی کرنا وفاق کے دائرہ کار سے باہر ہے: جسٹس شاہد جمیل خان کی رولنگ

383

لاہور: لاہور ہائی کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت غیر منقولہ جائیداد پر ٹیکس نہیں لگا سکتی۔ اس سے رئیل اسٹیٹ مارکیٹ بزنس میں دوبارہ جان پڑنے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔

غیر استعمال شدہ غیر منقولہ جائیداد پر ٹیکس لگانے کا خیال بذات خود برا نہیں ہے۔ پراپرٹی عام طور پر پاکستان میں دولت کو ذخیرہ کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور بڑی حد تک غیر دستاویزی اور بغیر ٹیکس کے ہے۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ایف بی آر کے اس ٹیکس کے نفاذ اور وصولی کے ساتھ وفاقی حکومت حقیقت میں پراپرٹی ٹیکس جمع کر رہی ہے۔ جبکہ ایف بی آر نے دعویٰ کیا ہے اور عدالت میں دلائل دیے ہیں کہ یہ انکم ٹیکس ہے پراپرٹی ٹیکس نہیں، گویا کچھ ابہام اپنی جگہ برقرار ہے۔

نئے قانون میں یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ ہر وہ پراپرٹی جو مالک کے زیر استعمال نہیں، ایف بی آر اس پراپرٹی کو مارکیٹ ویلیو کے 5 فیصد کے برابر کرایہ کے قابل سمجھے گا۔

اس “ڈیمڈ رینٹل انکم” پر 20 فیصد کی شرح سے ٹیکس لگایا جائے گا۔ آسان الفاظ میں، ہر جائیداد کے مالک کو وفاقی حکومت کو اپنی جائیداد کی مارکیٹ ویلیو کے ایک فیصد کے برابر ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔

لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ فرق واضح کر دیا ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ء کے سیکشن 7 ای کے تحت غیر منقولہ جائیدادوں پر ڈیمڈ انکم پر عائد ٹیکس کو آئین کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تین روز قبل لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد جمیل خان نے رولنگ دی تھی کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ء کے سیکشن 7 ای کے تحت غیر منقولہ جائیداد کی مارکیٹ ویلیو کو بطور آمدن لیتے ہوئے قانون سازی کرنا وفاق کے دائرہ کار سے باہر ہے۔

تاہم 50 صفحات کے فیصلے میں جسٹس شاہد جمیل خان نے قرار دیا کہ غیر منصفانہ طریقوں سے دولت جمع کرنے کی جانچ پڑتال کی جا سکتی ہے اور دیگر متعلقہ قوانین کی متعلقہ دفعات میں ترامیم کے ساتھ ٹیکس قانون کے تحت  فوجداری کارروائی کی جا سکتی ہے۔

ذرائع کے مطابق ایسی جائیدادیں جو کرائے کی آمدنی دیتی ہیں اور اگر ان کے ریٹرن میں ٹیکس کی قیمت منصفانہ مارکیٹ ویلیو سے کم ہے تو یہ بھی مارکیٹ ویلیو کے برابر ہو گی۔ تاہم اب بھی اسے قانون کا حصہ بنانے کی تجویز ہے۔

تاہم بجٹ میں جائیدادوں پر مزید ٹیکسز بھی متعارف کرائے گئے جنہیں رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے وابستہ افراد ماننے کو تیار نہیں۔ مثال کے طور پر غیر منقولہ جائیدادوں پر کیپیٹل گینز ٹیکس میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اسے تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی قسم کھلے پلاٹ کے لیے، دوسری تعمیر شدہ جائیداد کے لیے اور تیسری فلیٹ کے لیے تھی۔

اگر اوپن پلاٹ کو ایک سال کے لیے رکھا جائے تو اس پر کیپیٹل گین ٹیکس 15 فیصد ہو گا اور پھر اسے ہر سال بتدریج کم کیا جائے گا اور چھ سال کے بعد اس پر کوئی ٹیکس نہیں ہو گا۔ تعمیر شدہ جائیداد پر پہلے ہی چار سال کا گین ٹیکس تھا، یعنی اگر آپ اپنی جائیداد چار سال تک فروخت نہیں کرتے ہیں تو اس کے بعد آپ کو فروخت پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ اسی طرح فلیٹس صرف دو سال کے لیے گین ٹیکس کے تابع ہوں گے۔ اگر فلیٹ ایک سال کے لیے ہو تو اس پر 15 فیصد اور دو سال کے لیے 7.5 فیصد ٹیکس لگے گا۔

اسی طرح سیکشن 236 سی میں بھی کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں اور یہ سیکشن غیر منقولہ جائیداد کی فروخت یا منتقلی پر ایڈوانس ٹیکس سے متعلق ہے۔ اس سیکشن کے تحت عام طور پر جائیداد کی منتقلی پر ایک فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ پہلے یہ اصول بنایا گیا تھا کہ اگر کوئی جائیداد چار سال کے بعد فروخت ہوتی ہے تو اس پر یہ دفعہ نہیں لگائی جائے گی لیکن اب اس کی مدت بڑھا کر دس سال کر دی گئی ہے۔

دوسری جانب رئیل اسٹیٹ بزنس سے وابستہ  افراد لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے سے کافی خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے رئیل اسٹیٹ کے رکے ہوئے کاروبار کی بحالی کی امیدیں بڑھ گئی ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here