اسلام آباد: چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چلنے والے کول پاور پلانٹس کو زرمبادلہ حاصل کرنے میں رکاوٹوں کے باعث بندش کا سامنا ہے اور چینی حکومت یہ معاملہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ سفارتی سطح پر بھی اٹھا چکی ہے۔
3 فروری 2023ء کو اس حوالے سے اسلام آباد میں چینی سفارتخانے کی جانب سے وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر کو خط لکھ کر آگاہ کیا گیا کہ زرمبادلہ حاصل کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے باعث سی پیک کول پاور پلانٹس کو کوئلہ خریدنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے عدم ادائیگیوں کی وجہ سے کمپنیاں پاور پلانٹس بند کر رہی ہیں جن میں پورٹ قاسم پاور پلانٹ بھی شامل ہے۔
14 فروری کو پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی نے وزارت توانائی کو ایک علیحدہ خط لکھ کر متنبہ کیا کہ عدم ادائیگیوں کی وجہ سے اس کے 1320 میگاواٹ کے دو پاور ہائوسز تقریباََ بند ہو چکے ہیں۔
کمپنی کے مطابق دونوں پاور پلانٹس میں درآمدی کوئلہ استعمال ہوتا ہے۔ بارہا درخواستوں کے باوجود سٹیٹ بینک نے ایل سیز نہیں کھولیں جس کی وجہ سے سپلائر نے جنوری 2023ء سے کوئلے کی سپلائی روک رکھی ہےْ۔ کمپنی پر مالیاتی دبائو بڑھا ہے کیونکہ اس کے ذخائر ختم ہو چکے ہیں۔ اس لیے پاور پلانٹس بند کرنا پڑے۔
اسی سے ملتی جلتی رپورٹس انرجی سیکٹر کے ماہرین دے رہے ہیں کہ درآمدی کوئلے پر انحصار کرنے والے مزید تین پاور پلانٹس بھی بند ہو چکے ہیں۔
اس کے برعکس کچھ ماہرین کی رائے ہے کہ دراصل بجلی کی طلب میں کمی اِن پلانٹس کی بندش کی بنیادی وجہ ہے جبکہ یہ توانائی کے دیگر ذرائع کے مقابلے میں مہنگی بجلی پیدا کر رہے تھے۔
کوئلے سے بجلی کی پیداوار
نیشل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے مطابق جنوری 2023ء کے دوران ملک میں توانائی کھپت کی 28.7 فیصد بجلی کوئلے سے پیدا کی گئی جس کی مجموعی لاگت 16.11 فی کلو واٹ آور تھی۔
اس کو سمجھنے کیلئے دو حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ درآمدی کوئلے سے پیدا شدہ بجلی اور تھر سے نکلنے والے مقامی کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی۔
اس وقت چار پاور پلانٹس درآمدی کوئلے سے 4 ہزار 620 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں یعنی کول پاور کا 63.6 فیصد۔
اسی طرح چار پاور پلانٹس ہی تھر کول استعمال کرکے دو ہزار 640 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں یعنی مجموعی کول انرجی کا تقریباََ 36.36 فیصد۔
مقامی کوئلے پر انحصار
درآمدی کوئلے پر انحصار کرنے والے پاور پلانٹس کو زرمبادلہ سے متعلق مسائل درپیش ہیں تو مقامی کوئلے پر چلنے والے پاور پلانٹس کو بھی کئی مشکلات کا سامنا ہے۔
رواں سال کے آغاز میں سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نے پاور ڈویژن کو مطلع کیا تھا کہ ایل سیز کھولنے میں تاخیر کی وجہ سے اس کے مائننگ آپریشنز متاثر ہو رہے ہیں۔
کمپنی کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ایک مہینے تک مائننگ رُکنے کی وجہ سے چار کروڑ ڈالر کا نقصان ہو گا۔ تب کمپنی کے تین پاور پلانٹس تھرکول پر چل رہے تھے۔ اب ان کی تعداد چار ہو چکی ہے تو اس کا مطلب ہے نقصان مزید بڑھ چکا ہو گا۔
تاہم کچھ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹائروں اور سپئیر پارٹس کی درآمد پر پابندی کی وجہ سے مائننگ آپریشنز براہ راست متاثر نہیں ہوں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے سپلائر بھی چینی ہیں۔ اسی لیے چینی سفارتخانہ زیادہ پریشان ہے۔
مائننگ بند ہوئی تو تھرکول کے تحت چلنے والے چار پاور پلانٹس بند ہو جائیں گے۔ اِن میں 660 میگاواٹ کا اینگرو پاور تھر لمیٹڈ، 300 میگاواٹ کا تھر انرجی لمیٹڈ، 330 میگاواٹ کا تھر نووا پاور لمیٹڈ اور 660 میگاواٹ کا لکی الیکٹرک پاور شامل ہے۔
چار پاور پلانٹس کی بندش کی صورت میں تقریباََ دو ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم سے نکل جائے گی یا پھر ان پلانٹس کو درآمدی کوئلے پر چلانا پڑے گا جس کی وجہ سے بجلی تین گنا مہنگی ہو گی اور درآمدی بل میں ساڑھے چار کروڑ ڈالر ماہانہ اضافہ ہو جائے گا۔