24 فروری 2022ء کو روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اس کے ساتھ امریکا اور اتحادیوں نے روس پر سخت معاشی پابندیاں لگا دیں۔
امریکا کی دیکھا دیکھی یورپی یونین نے بھی مئی 2022ء میں روسی تیل اور گیس کی درآمد مکمل طور پر روک دی حالانکہ یورپ کی ستر فیصد انرجی ضروریات روس پوری کرتا ہے۔
2 دسمبر 2022ء کو جی سیون گروپ، یورپی یونین اور آسٹریلیا نے روسی تیل کی قیمت ساٹھ ڈالر فی بیرل مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ چین اور بھارت جیسے ممالک جو روسی تیل خرید رہے ہیں اور پیوٹن انتظامیہ کو بہ ظاہر معاشی فائدہ پہنچاتے نظر آتے ہیں وہ زیادہ مددگار ثابت نہ ہو سکیں۔
جی سیون کی مقرر کردہ قیمت پر عمل درآمد 12 دسمبر 2022ء کو شروع ہو گیا تاہم روس نے دنیا کو خبرار کر دیا کہ کوئی اس مقررہ قیمت پر تیل خریدنے کی توقع بھی مت کرے۔
ان سارے مسائل سے دور پاکستان میں البتہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ بھارت کی طرح پاکستان بھی سستا روسی تیل درآمد کرے تاکہ ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم ہوں۔
چونکہ پاکستان میں اشیائے خورونوش سے لے کر ہر چیز کی قیمت پٹرول اور ڈیزل سے مربوط ہوتی ہے۔ اس لیے عوام یہی چاہتے ہیں کہ بس سستا تیل مل جائے چاہے کہیں سے بھی مل جائے، تاکہ مہنگائی کچھ کم ہو سکے۔ انہیں بین الاقوامی تعلقات اور عالمی سیاست کے چونچلوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔
اسی عوامی ردعمل کو دیکھ کر حکومتی وزیر بھی بعض اوقات ایسے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں کہ حکومت روس سے تیل خریدنے کیلئے بات چیت کر رہی ہے۔
اس بات چیت سے قطع نظر، حقائق یہ ہیں کہ روس سے تیل درآمد کرنا کچھ ایسا آسان بھی نہیں اور اس درآمد کی راہ میں حائل رکاوٹیں شائد اس تیل کے ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ بڑی ہیں۔
پہلی رکاوٹ تو وہی مقررہ قیمت یعنی پرائس کیپ ہے جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔ بے شک پاکستانی حکومت روس سے تیل خریدنے اور انرجی انفراسٹرکچر پر تعاون کے حوالے سے اعلانات کرتی رہتی ہے لیکن مقررہ قیمت پاکستان کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔
پاکستان جی سیون کا رکن ہے نا ہی یورپی یونین کا۔ اور نا ہی ان کی مقررہ کردہ قیمت پاکستان پر براہ راست لاگو ہوتی ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ روس سے پاکستان تک تیل لانا تو مال بردار بحری جہازوں نے ہے اور اگر تیل ساٹھ ڈالر فی بیرل کی مقرر کردہ قیمت پر نہ خریدا گیا تو شائد کوئی جہاز راں کمپنی یہ تیل اٹھانے پر راضی ہی نہ ہو اور کوئی انشورنس فرم ایسے کسی مال بردار بحری جہاز کی انشورنس ہی نہ کرے۔
لیکن روس تو پہلے ہی جی سیون کی مقرر کردہ قیمت پر تیل دینے سے انکار کر چکا ہے حالانکہ اس کی تیل کی برآمدات تیزی سے گر رہی ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق 12 دسمبر 2022ء کو جیو سیون کی مقرر کردہ قیمت نافذ ہونے کے اگلے ہی روز روسی تیل کی برآمدات میں خاطر خواہ کمی دیکھی گئی۔
کموڈٹی مارکیٹ ڈیٹا اینالیٹکس کمپنی Kpler کے مطابق جی سیون کی مقرر کردہ قیمت کے نفاذ سے روسی تیل کی روزانہ برآمدات میں پانچ لاکھ بیرل کی کمی دیکھی گئی ہے یعنی نومبر 2022ء میں تیس لاکھ بیرل روزانہ برآمدات سے تقریباََ سولہ فیصد کم۔
یہ بھی پڑھیے:
تیل کے بغیر خلیجی عرب ملکوں کا مستقبل کیا ہو گا؟
پٹرول و ڈیزل کے بعد خوردنی تیل کا عالمی بحران بھی سر پر منڈلا رہا ہے
روس تو دور ہے مگر پاکستان اپنے ہمسائے ایران سے سستا تیل کیوں نہیں خریدتا؟
بحری جہازوں کے سگنلز اور سیٹلائٹ امیجز کی مدد سے بحری آمدورفت پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ ٹینکر ٹریکرز ڈاٹ کام کے مطابق جی سیون کی مقرر کردہ قیمت کے نفاذ کے بعد روسی خام تیل کی برآمد میں پچاس فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ یہ کمی زیادہ تر بحیرہ بالٹک اور بحیرہ اسود میں روسی بندرگاہوں پر دیکھنے میں آئی۔
تیل کی ترسیل کا نظام کافی پیچیدہ ہے کیونکہ اس میں بحری جہاز رانی کی صنعت کے علاوہ انشورنس، تجارت اور مالیات سے متعلقہ شعبے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اگر اِن شعبوں سے وابستہ کمپنیاں روسی تیل کی برآمد میں معاونت کریں گی تو جی سیون کی مقرر کردہ قیمت اُن تمام شعبوں کی کمپنیوں کو متاثر کرے گی۔
خام تیل اور اس کی ذیلی مصنوعات یعنی پٹرول یا ڈیزل وغیرہ کی ترسیل کیلئے مخصوص قسم کے آئل ٹینکرز استعمال ہوتے ہیں جنہیں ان کی وزن اٹھانے کی صلاحیت کے مطابق دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
خام تیل اٹھانے والے ٹینکرز: بڑی مقدار میں خام تیل کو آئل فیلڈ، یعنی جہاں سے تیل نکلتا ہے، وہاں سے ریفائنری تک پہنچانے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔
پروڈکٹ ٹینکرز: ریفائنری سے پٹرول سٹیشن تک پٹرول اور ڈیزل کی ترسیل کیلئے استعمال ہوتے ہیں اور حجم میں کچھ چھوٹے ہوتے ہیں۔
آئل ٹینکر کی وزن اٹھانے کی صلاحیت کو ڈیڈ ویٹ ٹن (DWT) میں ناپا جاتا ہے، کسی بحری جہاز پر موجود سامان، ایندھن، عملے اور دیگر چیزوں کے مجموعی وزن میں سے خالی بحری جہاز کا وزن منہا کر دیں تو ڈیڈ ویٹ نکل آتا ہے۔
ساٹھ کی دہائی میں دو لاکھ ڈیڈ ویٹ ٹن صلاحیت والے وی ایل سی سی یعنی ’’ویری لارج کروڈ کیرئیر‘‘ متعارف کرائے گئے تھے جو بیک وقت بیس لاکھ بیرل تیل کی ترسیل کر سکتے تھے۔
تین لاکھ بیس ہزار ڈیڈ ویٹ والے یو ایل سی سی یعنی ’’الٹرا لارج کروڈ کیرئیرز‘‘ بھی متعارف کرائے گئے جو بیک وقت تیس لاکھ بیرل خام تیل کی ترسیل کیلئے استعمال ہوتے تھے۔
اس کے علاوہ درمیانے حجم والے آئل ٹینکرز بھی ہوتے ہیں جو سمندر کی بجائے دریائوں اور بڑی نہروں سے گزر سکتے ہیں۔
جیسا کہ پانامیکس آئل ٹینکرز جو پاناما کینال سے گزر سکتے ہیں۔ ایفرا میکس اور سوئز میکس مصر کی نہر سوئز سے بآسانی گزر سکتے ہیں۔
چین، بھارت اور دوسرے ایشیائی ملکوں کے نوے فیصد آئل ٹینکرز کی انشورنس پر یورپی اور برطانوی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ اس لیے روسی تیل پر جی سیون کی مقررہ کردہ قیمت ان تمام آئل ٹینکرز پر بھی لاگو ہو گی۔ تقریباََ تمام یورپی بندرگاہوں کو یہ مال بردار بحری جہاز اُسی صورت میں استعمال کر سکتے ہیں جب اُن کے پاس انشورنس ہو گی۔
اَب پاکستان کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم روس سے تیل خریدنے کا معاہدہ کر بھی لیں تو ہم وہ تیل پاکستان لائیں گے کیسے؟ اور اگر جی سیون کی مقرر کردہ قیمت کے مطابق تیل خریدنے کی کوشش کی تو روس تیل دے گا نہیں۔
یعنی روس پر عالمی پابندیوں کے باوجود پاکستان روسی تیل خرید تو سکتا ہے لیکن مسئلہ اس تیل کو ملک میں لانے کا ہے اور سب سے بڑی رکاوٹ وہی آئل ٹینکرز کی انشورنس نہ ہونا ہے۔
تاہم کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق چونکہ روس کو اس قسم کی پابندیوں کا پہلے سے ادراک تھا اس لیے یوکرین پر حملے کے وقت ہی پیوٹن حکومت نے ایک بڑا ’’شیڈو آئل ٹینکر فلِیٹ‘‘ بنا لیا تھا تاکہ پابندیوں کی زد میں آنے والے تیل اور گیس کی دوسرے ملکوں کو ترسیل ممکن بنائی جا سکے اور جنگ کے دوران پیسہ کمایا جا سکے۔
شپنگ بروکرز کے مطابق شیڈو فلیٹ میں پہلے تقریباََ ایک سو آئل ٹینکرز شامل کیے گئے اور بعد ازاں خفیہ طور پر مزید کئی سو آئل ٹینکرز کا اضافہ کر دیا گیا۔
شائد یہی شیڈو آئل ٹینکرز ہی روسی تیل کو پاکستان تک پہنچانے کا واحد ذریعہ ہو سکتے ہیں کیونکہ جہاں تک انشورنس سمیت دیگر قانونی راستوں کا سوال ہے تو ان پر تاحال ایک بڑا سوالیہ نشان باقی ہے۔
پرافٹ نے پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن سے اصل صورتِ احوال جاننے کی کوشش کی تاہم انہوں نے کسی بھی تبصرے سے انکار کر دیا۔
پھر بھی موجودہ صورت حال میں اگر روس کے ساتھ سستے تیل کا معاہدہ ہو جاتا ہے اور یہ تیل کسی طرح پاکستان پہنچنا شروع ہو جاتا ہے تو یہ ملکی معیشت کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گا، بہ صورت دیگر ایک کھوکھلا سیاسی نعرہ۔