’’میڈ اِن چائنا‘‘۔ یہ مختصر سا جملہ آپ نے سمارٹ فون، کمپیوٹر اور ایسی ہی ہزاروں مصنوعات پر لکھا دیکھا ہو گا۔
لیکن ’’میڈ اِن امریکا‘‘ کم ہی کسی چیز پر لکھا دیکھا ہو گا اور کسی سمارٹ فون پر تو بالکل بھی نہیں۔
اس کی سیدھی سی وجہ تو یہ ہے کہ سمارٹ فون مینوفیکچرنگ ایک عرصے سے چین کے زیر اثر ہے۔
حالانکہ آئی فون اور گوگل پکسل جیسے مہنگے فون بنانے والی دونوں بڑی کمپنیاں امریکی ہیں اور کھربوں ڈالر کی مارکیٹ ویلیو رکھتی ہیں۔
دراصل یہ رجحان ہمیشہ سے نہیں تھا بلکہ امریکا 60ء کی دہائی سے صارف مصنوعات کی پیداوار (consumer products manufacturing) میں عالمی رہنما کے طور پر اپنا کردار ادا کرتا چلا آ رہا تھا۔
تاہم 70ء اور 80ء کی دہائی میں جاپان، چین اور کچھ دیگر ایشیائی ممالک بھی صارف مصنوعات کی پیداوار کی دوڑ میں شامل ہو گئے اور امریکا اس دوڑ کا واحد کھلاڑی نہ رہا۔
پھر 2010ء میں وہ وقت آیا جب صارف مصنوعات کی پیداوار میں چین نے امریکا کو پیچھے دیا۔
اعدادوشمار کا بہ غور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ 1990ء کی دہائی تک چین عالمی سطح پر صارف مصنوعات کی پیداوار میں 3.5 فیصد کا حصہ دار تھا تاہم آئندہ دس سالوں میں اس نے دیگر شعبوں کی طرح اس شعبے میں خاطر خواہ ترقی کی اور 2021ء تک اس کا عالمی پیداوار میں حصہ 30 فیصد تک جا پہنچا۔
اس کے برعکس امریکا کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ 2021ء میں عالمی سطح پر صارف مصنوعات کی پیداوار میں امریکا کا حصہ 16.8 فیصد رہا اور وہ چین کے بعد دوسرے نمبر پر رہا۔
لیکن امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح موجودہ صدر جوبائیڈن بھی کم و بیش ہر تقریر میں ’’میڈ اِن یو ایس اے‘‘ کے نعرے بلند کرتے ضرور نظر آتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ اَب امریکا اِس رجحان کو ایک بار پھر اپنے حق میں بدلنے اور چین کے ساتھ صارف مصنوعات کی پیداوار کے میدان میں مسابقت کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔
امریکا کی اِن کوششوں کے پس پردہ ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ ہے کورونا وبا کے بعد پیدا ہونے والی رسد کی رکاوٹیں۔ ان رکاوٹوں نے بھی امریکیوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی بند پڑی فیکٹریاں دوبارہ کھولیں۔
یہی وجہ ہے کہ اَب سیمی کنڈکٹرز اور برقی گاڑیوں کی بیٹریاں بنانے والی کمپنیاں امریکا میں نئی فیکٹریاں لگانے پر آمادہ ہو رہی ہیں اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پر تیار ہیں۔
لیکن اس کے برعکس ایپل اور ایلفابیٹ جیسی بڑی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہیں اور بدستور اپنی مصنوعات کی پیداوار امریکا سے باہر کر رہی ہیں۔
یہ امریکی کمپنیاں ہر سال سینکڑوں انجنیئرز صرف اس مقصد کیلئے بھرتی کرتی ہیں کہ وہ دوسرے ملکوں میں جا کر اُن کی فیکٹریوں میں معاملات کی نگرانی کریں۔
جیسا کہ 2019ء میں آئی فون بنانے والی کمپنی ایپل کے 50 انجنئیر روزانہ سان فرانسسکو سے شنگھائی کیلئے یونائیٹڈ ائیرلائن کی بزنس کلاس پرواز لیتے تاکہ شنگھائی میں ایپل فیکٹری کے معاملات دیکھ سکیں۔
یوں 2019ء میں ایپل یونائیٹڈ ائیرلائن کی سب سے بڑی گاہک قرار پائی اور اس نے ائیرلائن کو سالانہ 15 کروڑ ڈالر ادا کیے۔
آپ کو معلوم ہو گا کہ چین اور امریکا کی تجارتی کشیدگی گزشتہ کچھ سالوں سے جاری ہے۔ اوپر سے چینی کورونا پابندیوں کے حوالے سے باقی دنیا سے کچھ زیادہ ہی حساس واقع ہوئے ہیں اور یہ پابندیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں جس کی وجہ سے کمپنیوں کو بالخصوص صنعتی پیداوار کیلئے کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہی وجوہات کی بناء پر ایپل نے آئی فون بنانے کے لئے بہ ظاہر محفوظ جگہ ڈھونڈی ہے اور وہ ہے بھارت۔
جی ہاں! آئی فون 14 کی چین میں معمولی پیداوار کے بعد ایپل نے بقیہ پیداوار بھارت میں کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
یوں تو ایپل ملائیشیا، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا اور چیک ری پبلک میں بھی اپنی مصنوعات بناتی ہے لیکن ایک رپورٹ کے مطابق 2025ء تک ہر چوتھا آئی فون بھارتی ساختہ ہو گا۔
ایپل یہی فون امریکا میں کیوں نہیں بناتی؟
ایپل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ٹِم کُک نے 2012ء میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مسئلہ پیداواری عمل واپس امریکا لانے کا نہیں بلکہ امریکا میں پیداواری عمل بالکل نئے سرے سے شروع کرنے کا ہے۔
2017ء میں ٹم کک کا کہنا تھا کہ امریکا میں آئی فون یا دیگر مصنوعات کی پیداوار نہ کرنے کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے مخصوص ٹیکنالوجی کی تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چین کے بارے میں جو یہ کہا جاتا ہے کہ چینی افرادی وقت سستی ہے اسی لیے کمپنیاں وہاں منتقل ہو رہی ہیں۔ یہ تصور ہی غلط ہے۔ بلکہ کمپنیاں اس لیے چین کا رُخ کرتی ہیں کیونکہ وہاں آپ کو ایک ہی جگہ بڑی تعداد میں تربیت یافتہ افرادی قوت مل جاتی ہے جو امریکا میں دستیاب نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
چین میں رئیل اسٹیٹ بحران، دنیا کیوں پریشان ہے؟
چینی ارب پتی پراسرار طور پر غائب کیوں ہو رہے ہیں؟
چین کی ایک تو آبادی بہت زیادہ ہے۔ دوسرا یہ ملک ہر سال سب سے زیادہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے گریجوایٹ پیدا کر رہا ہے۔ ظاہر ہے اُن گریجوایٹس نے ڈگری لے کر کچھ کمانا بھی ہے۔ تو اسی سے اندازہ لگا لیں کہ کیوں چین میں بہترین تربیت یافتہ افرادی قوت کمپنیوں کو بڑی مقدار میں دستیاب ہے۔
پھر بھی اگر افرادی قوت پر اٹھنے والے اخراجات کا موازنہ کیا جائے تو چین اور امریکا میں کافی فرق ہے۔
مثال کے طور پر امریکا میں کم از کم فی گھنٹہ اجرت 7.25 ڈالر مقرر ہے۔ لیکن اس کے برعکس چین میں کم از کم اجرت مقرر ہی نہیں۔
چینی صوبے ہینان کے شہر جینگ ژہائو (Zhengzhou) میں فوکس کون (Foxconn) کی سب سے بڑی فیکڑی ہے۔ یہ کمپنی برقی مصنوعات بنانے والی دنیا کی بڑی کمپنیوں میں شامل ہے۔ ایپل اسی کمپنی سے آئی فون تیار کرواتی ہے۔
اس کمپنی میں ملازمین کو کم از کم فی گھنٹہ اجرت 19.60 یوآن ملتی ہے جو تین ڈالر سے بھی کم ہے۔ یعنی امریکا میں ملازمین کی فی گھنٹہ اجرت سے تقریباََ آدھی۔
چین میں کمپنیوں کو ایک تو کم خرچے میں تربیت یافتہ افرادی قوت بڑی تعداد میں میسر ہوتی ہے۔ دوسرا یہاں رسد کے مسائل بھی درپیش نہیں ہوتے کیونکہ چِپ سیٹ سے لے کر سمارٹ فون کے پرزے بنانے والی کمپنیوں تک سبھی چینی اور تائیوانی ہیں۔
لیکن دوسری طرف ایپل کا اصرار ہے کہ اس کی تمام مصنوعات اور پرزے امریکا میں ڈیزائن کیے جاتے ہیں اور وہیں انہی جوڑا جاتا ہے۔ تاہم حقائق اس کے برعکس ہیں۔
امریکا میں پیداواری عمل کس قدر مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا اندازہ اس مثال سے لگائیے کہ 2012ء میں گوگل نے ساڑھے 12 ارب ڈالر میں مٹرولا کو خرید لیا اور اعلان کر دیا کہ اگلے ایک سال کے اندر امریکا کا پہلا سمارٹ فون مینوفیکچرنگ پلانٹ ٹیکساس میں لگایا جائے گا۔ اس کا مقصد تھا امریکیوں کو سستے’میڈ اِن یو ایس‘ سمارٹ فون فراہم کرنا۔
لیکن ایک سال بعد ہی اس پلانٹ کو بند کرنا پڑا کیونکہ اسے چلانے پر اٹھنے والے اخراجات متوقع آمدن سے کہیں زیادہ تھے اور امریکی صارفین میں مصنوعات کی طلب بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس کی بجائے یہ صارفین دیگر ملکوں میں بننے والے سمارٹ فون کو زیادہ ترجیح دے رہے تھے۔
بالآخر اربوں ڈالر کا نقصان کرنے کے بعد گوگل کو مٹرولا لینووو (Lenovo) کے ہاتھ بیچنا پڑی۔
ماہرین متفق ہیں کہ مٹرولا کی ناکامی کی اس مثال سے پتا چلتا ہے کہ امریکا میں تربیت یافتہ افرادی قوت کی کتنی کمی ہے اور پیداواری اخراجات کس قدر زیادہ ہیں۔
تاہم اکثر ماہرین کے خیال میں امریکا میں سمارٹ فونز کا پیداواری عمل شروع کرنا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ لیکن اس میں وقت لگے گا کیونکہ فی الوقت سمارٹ فون اور برقی مصنوعات بنانے والی تربیت یافتہ افرادی قوت زیادہ تر ایشیا کے پاس ہے۔
اس کے باوجود کچھ کمپنیاں امریکا میں پیداواری عمل شروع کرنے کا خطرہ مول لے رہی ہیں۔ پیورِزم (Purism) ایسی ہی ایک امریکی کمپنی ہے جو سمارٹ فون، لیپ ٹاپ، چھوٹے کمپیوٹر اور ایسی ہی دیگر مصنوعات بناتی ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت شائد اس سے ناواقف ہو۔
اس کمپنی کا لِبرم فائیو (Librem 5) دنیا کا پہلا سمارٹ فون ہے جس پر ’میڈ اِن یو ایس اے‘ کی مہر لگی ہے اور اس کے تمام پرزہ جات بھی امریکی ساختہ ہیں۔ ماسوائے چپ سیٹ اور وائی فائی کارڈ کے۔
امریکی شہریوں کے لیے اس سمارٹ فون کی قیمت رکھی گئی ہے دو ہزار ڈالر۔ باقی دنیا کیلئے یہی سمارٹ فون 1300 ڈالر میں دستیاب ہے لیکن چین میں بنا ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ پیورزم نے بھی اخراجات بچانے کے لیے کچھ پیداوار چین میں کی ہے۔
یہ کمپنی امریکا میں سمارٹ فون کے ساتھ برقی چِپ کی پیداوار شروع کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے لیکن اس کے سی ای او بھی افرادی قوت پر اٹھنے والے بہت زیادہ اخراجات سے شاکی ہیں۔
تو کیا امریکا میں سمارٹ فون مینوفیکچرنگ ہو ہی نہیں سکتی؟
ایسا بھی نہیں۔ امریکا ٹیکنالوجی کے میدان میں ساری دنیا سے آگے ہے۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ امریکا کو مینوفیکچرنگ ایکو سسٹم بنانے کے لئے انسانی وسائل پر بھاری سرمایہ کاری کرنا ہو گی جس کا واضح مطلب ہے کہ زیادہ تعداد میں تربیت یافتہ ہاتھ پیدا کرنا ہوں گے۔
اس کے علاوہ سمارٹ فونز کے پرزہ جات کی رسد کو تیز تر بنانے کے لیے ان کی پیداوار بھی مقامی طور پر کرنا ہو گی تاکہ فیکٹریوں کو رسد کا مسئلہ نہ ہو۔
لیکن فی الوقت امریکا میں دونوں چیزیں ہی موجود نہیں۔ اس لیے کئی سالوں سے پیداوار باہر ہو رہی ہے۔ اس لیے اچانک سمارٹ فون بنانا شروع کر دینا امریکی کمپنیوں کی گھاٹے کا سودا ثابت ہو گا۔
تاہم امریکی حکومت بھی اَب اس میدان میں کود چکی ہے اور اس نے چِپ بنانے والی اور دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اگست 2022ء میں صدر جوبائیڈن نے چِپ اینڈ سائنس ایکٹ پر دستخط کیے تھے۔ اس کا مقصد سیمی کنڈکٹرز کے حوالے سے تحقیق کو فروغ دینا، ترقی اور پیداواری عمل کو تیز کرنا اور تربیت یافتہ افرادی قوت پیدا کرنا ہے۔
اس مقصد کے لیے امریکی حکومت سالانہ 52 ارب ڈالر خرچ کرنے پر آمادہ ہے۔ صارف مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے 39 ارب ڈالر کی ٹیکس چھوٹ الگ سے دی جائے گی۔
امریکا میں یہ سب ہو تو پہلی بار رہا ہے لیکن اس کے پیچھے بھی دو عوامل ہیں۔
پہلا: چین سے تجارتی کشیدگی۔
اور دوسرا: چین میں پیداوار کی وجہ سے امریکی صارفین کے ذاتی ڈیٹا کے تحفظ پر خدشات۔
اس لیے حکومت اور امریکی کمپنیاں بھی یہ چاہتی ہیں کہ سمارٹ فون اور ایسی دیگر مصنوعات کو جتنی جلدی ہو سکے مقامی طور پر تیار کیا جائے۔ چاہے جتنے ارب ڈالر بھی پھونکنا پڑیں۔