امریکہ میں دہائیوں سے ایک روایت چلی آ رہی تھی کہ جب بھی امریکی صدر نیویارک کا دورہ کرتے تو وہ والڈروف اسٹوریا ہوٹل (Waldorf Astoria Hotel) میں ٹھہرتے تھے مگر 2014ء میں صدر اوباما نے سکیورٹی کو وجہ بناتے ہوئے اس ہوٹل میں ٹھہرنے سے انکار کر دیا، اُس وقت ایک چینی کمپنی تقربیاً 2 ارب ڈالر میں یہ ہوٹل خرید چکی تھی۔
یہ امریکا میں چین کی غیرمعمولی سرمایہ کاری کی ایک مثال ہے۔ چین امریکا میں سالانہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرتا ہے جس کی واضح ترین مثالیں نیویارک میں ملتی ہیں جہاں مین ہٹن کے فنانشل ڈسٹرکٹ میں 60 منزلہ 28 لبرٹی سٹریٹ، جسے One Chase پلازہ بھی کہا جاتا ہے، اور باکارت ہوٹل (Baccarat Hotel) اب چینی کمپنیوں یا شہریوں کی زیرملکیت ہیں۔ جنرل موٹرز کی عمارت میں بھی چینی سرمایہ کار حصہ دار ہیں۔
نیویارک فلک بوس عمارتوں کیلئے شہرت رکھتا ہے۔ 2014ء میں بینک آف چائنہ نے نیویارک کے وسط میں ایک سکائی سکریپر 60 کروڑ ڈالر میں خریدا تھا۔
امریکا میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں نمایاں ترین نام چینی ارب پتی خاتون یانگ زین (Zhang Xin) کا ہے۔ ان کے خاندان نے 2011ء میں 44 منزلہ پارک ایونیو پلازے کے 49 فیصد شئیرز خریدے جبکہ 2013ء میں یانگ زین نے کچھ چینی سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر جنرل موٹرز بلڈنگ کے 40 فیصد شئیرز خرید لیے۔
یہ بھی پڑھیے:
سنگا پور اس قدر امیر ملک کیسے بنا؟
جاپان میں لوگ غیرمعمولی طور پر زیادہ کام کیوں کر رہے ہیں؟
چھوٹا سا ملک جس کی لندن میں پراپرٹی ملکہ برطانیہ سے بھی زیادہ ہے
امریکا میں چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے دوسرا بڑا نام ایچ این اے گروپ کا ہے جس نے نیویارک، سان فرانسسکو، شکاگو اور دیگر شہروں میں رئیل اسٹیٹ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
صرف رئیل اسٹیٹ ہی نہیں، چینی سرمایہ کاروں نے دیگر شعبوں میں بھی اربوں ڈالرز لگا رکھے ہیں۔
2012ء میں چین کے دالیان وانڈا گروپ ( Dalian Wanda Group) نے 2 ارب 60 کروڑ ڈالر میں امریکا کی اے ایم سی انٹرٹینمنٹ کمپنی خرید لی اور دنیا کی سب سے بڑی سینما چین بن گیا تاہم 2021ء میں اس گروپ نے اے ایم سی کے اکثریتی شئیرز فروخت کر دیے۔
اسی طرح کچھ چینی سرمایہ کاروں نے میٹ ڈیمن (Matt Damon) کی فلم “گریٹ وال” بنانے والی لیجنڈری انٹرٹینمنٹ کے شئیرز بھی ساڑھے 3 ارب ڈالر میں خرید لیے۔
چینی سرمایہ کاروں کی جانب سے امریکا میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری 2016ء میں کی گئی جس کا حجم 45 ارب 60 کروڑ ڈالر تھا تاہم 2017ء سے امریکا میں چینی سرمایہ کاری کم ہونا شروع ہو گئی۔
یہ وہ وقت تھا جب چین اور اس کے شہریوں کی دولت اور آمدن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا مگر ملکی ترقی کی رفتار سست پڑنے لگی تھی۔ چینی سرمایہ کاروں کو یہ خوف لاحق ہو گیا کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو یوآن کی قدر گر سکتی ہے اور چین کے اندر ان کے اثاثوں کی مالیاتی ویلیو کم ہو جائے گی۔
لہٰذا چینی سرمایہ کاروں نے چین سے باہر اثاثے خریدنا شروع کر دیے۔ بیرون ملک رئیل اسٹیٹ اور کمپنیوں کو چینی بینک اکائونٹس سے پیسے کی منتقلی کا سلسلہ بڑھا تو چینی حکومت کو تشویش لاحق ہوئی کہ ملکی معیشت سے سرمائے کے انخلا کی وجہ سے کرنسی پر دباؤ بڑھے گا اور اس کی قدر گر جائے گی۔
حکومت نے سرمائے کا انخلا روکنے لیے متعدد اقدامات اٰٹھانے کے علاوہ چینی سرمایہ کاروں کو اپنا پیسہ واپس لانے کی ترغیب دینا شروع کر دی۔ حکومت کی توجہ چار بڑے نجی کاروباری گروپس ایچ این اے، آن بانگ انشورنس، فوسن انٹرنیشنل اور دالیان وانڈا گروپ پر تھی۔
آغاز میں ہم نے نیویارک کے والڈروف اسٹوریا ہوٹل کا ذکر کیا ہے، اسے چین کے آن بانگ گروپ نے خریدا تھا جو دنیا میں ہائی پروفائل پراپرٹیز کی خریداری پر اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ مگر 2018ء میں چینی حکومت نے اس کمپنی کو قبضے میں لے کر اس کے چئیرمین کو گرفتار کر لیا جس کا مطلب یہ تھا کہ والڈروف اسٹوریا ہوٹل اب چینی حکومت کی ملکیت ہے۔
اس کے بعد ہینان ائیرلائنز یا ایچ این اے گروپ کا نام آتا ہے جس کا آغاز 1993ء میں ایک چھوٹی سی ائیرلائن سے ہوا تھا مگر اب یہ گروپ دنیا بھر میں ہوٹلنگ، سیاحت اور رئیل اسٹیٹ میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
2017ء میں ایچ این اے دنیا کی 170ویں بڑی کمپنی قرار پائی اور اس کا سالانہ ریونیو 50 ارب ڈالر تھا۔ اُسی سال ایچ این اے گروپ نے ریڈیسن ہوٹلز کے 100 فیصد شئیرز خرید لیے جو ایک سال بعد 2018ء میں جِن جیانگ انٹرنیشنل ہولڈنگز کو فروخت کر دیے۔
اس کے علاوہ ایچ این اے گروپ نے نیویارک میں 245 پارک ایونیو پلازہ 2 ارب 20 کروڑ ڈالر میں خریدا۔ یہ نیویارک کی تاریخ میں کسی آفس بلڈنگ کی فروخت کا سب سے مہنگا سودا تھا۔ اس گروپ نے ہلٹن ہوٹل میں ساڑھے 6 ارب ڈالر کے شئیرز اور ڈوئچے بینک کے تین فیصد شئیرز بھی خریدے۔
اس بات کے اشارے موجود ہیں کہ بیرونِ ملک سرمایہ لے جانی والی کمپنیوں کو چینی حکومت کے دباؤ کا سامنا ہے۔
وال سٹریٹ جرنل کی 19 اگست 2018ء کی خبر کے مطابق چین کے آن بانگ گروپ نے ساڑھے 5 ارب ڈٓالر کا لگژری ہوٹل فروخت کیلئے پیش کر دیا۔
اسی طرح رائٹرز نے 9 اکتوبر 2018ء کو خبر دی کہ ایچ این اے گروپ نے 11 ارب ڈالر کی پراپرٹی فروخت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
نیویارک پوسٹ کی 9 اکتوبر 2018ء کی اشاعت میں بتایا گیا کہ فوسن انٹرنیشنل 28 لبرٹی میں اپنے شئیرز ایک ارب 60 کروڑ ڈالر میں فروخت کرنا چاہتا ہے۔
اُدھر امریکا نے بھی قومی سلامتی کو جواز بنا کر غیرملکی سرمایہ کاری کو مشکل بنا دیا ہے۔ چین کے علی بابا گروپ نے اپنی ذیلی کمپنی اینٹ فنانشل کے ذریعے منی گرام کو خریدنے کی کوشش کی تو امریکی حکومت نے اس ڈیل کو روک دیا۔ ایچ این اے گروپ نے بھی سکائی برج کیپیٹل کو حاصل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
امریکا اور چین کے مابین تجارتی تنائو اور دیگر مسائل کی وجہ سے چینی سرمایہ کار بھی ہاتھ کھینچ رہے ہیں اور امریکا میں چین کی سرمایہ کاری اُس سطح پر پہنچ چکی ہے جہاں 10 سال قبل تھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس سرمایہ کاری میں مزید کمی ہوتی ہے یا پھر دوبارہ بڑھنے کے امکانات سامنے آتے ہیں۔