اقوام متحدہ: وزیراعظم عمران خان نے دنیا کی توجہ ترقی پذیر ممالک سے ناجائز سرمائے کی امیر اور ’محفوظ‘ ملکوں میں منتقلی روکنے کیلئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی پر زور دیا ہے کہ وہ ناجائز سرمائے کی منتقلی روکنے کیلئے جامع قانونی ڈھانچہ وضع کرے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے ورچوئلی خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مالیاتی احتساب، شفافیت اور سالمیت (ایف اے سی ٹی آئی) کے بارے میں سیکرٹری جنرل کے اعلیٰ سطحی پینل نے تخمینہ لگایا ہے کہ سات کھرب ڈالرکے چوری شدہ اثاثہ جات مالیاتی طور پر ”محفوظ ٹھکانوں” میں جمع ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ منظم چوری اور اثاثہ جات کی غیر قانونی منتقلی ترقی پذیر اقوام پر گہرے منفی اثرات کی حامل ہے، یہ ان کے پہلے سے محدود وسائل کو ختم کر رہی ہے، غربت کی سطح کو مزید گھمبیر بنا رہی ہے بالخصوص منی لانڈرنگ کرنسی پر دباﺅ ڈالتی ہے اور اس کی قدر میں کمی کا باعث بنتی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ شرح پر جب ایف اے سی ٹی آئی پینل نے تخمینہ لگایا ہے کہ ایک کھرب ڈالر سالانہ ترقی پذیر دنیا سے باہر نکالا جاتا ہے تو امیر اقوام کی طرف بڑے پیمانے پر اقتصادی تارکین وطن کا خروج ہو گا۔
انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے انڈیا کے ساتھ کیا وہ شاطر حکمران اشرافیہ ترقی پذیر دنیا کے ساتھ کر رہی ہے یعنی دولت کو لوٹ کر مغربی دارالحکومتوں اور آف شور ٹیکس ہیونز میں منتقل کر رہی ہے۔
Prime Minister Imran Khan virtually addressing the 76th session of #UNGA #PMImranKhanAtUNGA @PakPMO @UN @ForeignOfficePk https://t.co/VRs8eOoKt3
— Government of Pakistan (@GovtofPakistan) September 24, 2021
عمران خان نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک سے چرائے گئے اثاثہ جات کو واپس لینا غریب اقوام کیلئے ناممکن ہے، متمول ممالک کو یہ ناجائز دولت واپس کرنے سے کوئی ترغیب یا مجبوری نہیں اور یہ ناجائز ذرائع سے جمع کی گئی دولت ترقی پذیر ممالک کے عوام سے تعلق رکھتی ہے۔
’میں سمجھتا ہوں کہ بعید نہیں، ایک وقت آئے گا جب امیر ممالک کو ان غریب ممالک سے معاشی تارکین وطن کو روکنے کیلئے دیواریں کھڑی کرنے پر مجبور ہوں گے۔ مجھے خدشہ ہے کہ غربت کے سمندر میں چند امیر جزائر بھی موسمیاتی تبدیلی جیسی عالمی آفت میں تبدیل ہو جائیں گے۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ جنرل اسمبلی کو اس انتہائی پریشان کن اور اخلاقی طور پر ناگوار صورت حال کے تدارک کیلئے بامقصد اقدامات اٹھانے چاہئیں، ایسی “پناہ گاہوں” کو نادم کرنا اور ایک ناجائز مالیاتی بہاﺅ کو روکنے اور بازیافت کیلئے جامع لیگل فریم ورک وضع کرنا اس سنگین اقتصادی ناانصافی کو روکنے کیلئے نہایت اہم اقدامات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں کم از کم سیکرٹری جنرل کے ایف اے سی ٹی آئی کی سفارشات پر مکمل عمل درآمد ہونا چاہئے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی آج کرہ ارض کے وجود کو لاحق خطرات میں سے ایک بڑا خطرہ ہے، پاکستان کاعالمی سطح پر مضر گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، پھر بھی ہم دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے دس انتہائی زد پذیر ممالک میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اپنی عالمی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ رہتے ہوئے ہم کایا پلٹ ماحولیاتی پروگراموں، 10 ارب ٹری سونامی کے ذریعے پاکستان میں دوبارہ جنگلات اگانے، قومی ماحول کے تحفظ، قابل تجدید توانائی کی طرف رجوع کرنے، اپنے شہروں سے آلودگی ختم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے موافقت کے راستے پر گامزن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوویڈ وبا، اقتصادی مندی اور موسمیاتی ایمرجنسی کے سہ جہتی بحران سے نبرد آزما ہونے کیلئے ہمیں ایک جامع حکمت عملی درکار ہے جو تین امور پر محیط ہونی چاہئے۔
’ویکسین میں مساوات ہو، ہر ایک کو ہر جگہ کوویڈ کے خلاف جتنی جلدی ممکن ہو سکے ویکسین فراہم کی جانی چاہئے۔ ترقی پذیر ممالک کو مناسب سرمایہ دستیاب ہونا چاہئے، یہ قرضوں کی جامع ری سٹرکچرنگ، توسیع شدہ او ڈی اے، استعمال شدہ ایس ڈی آرز کی تقسیم نو اور ایس ڈی آرز کا وسیع تر حصہ ترقی پذیر ممالک کو مختص کرنے اور کلائمیٹ فنانس کی فراہمی کے ذریعے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔‘
ہمیں واضح سرمایہ کاری کیلئے حکمت ہائے عملی اختیار کرنی چاہئے جو تخفیف غربت میں معاون ہوں، روزگار کو فروغ دیں، پائیدار بنیادی ڈھانچہ کو تشکیل دیں اور بلاشبہ ڈیجیٹل تقسیم کے خلا کو دور کریں۔
وزیراعظم نے تجویز کیا کہ سیکرٹری جنرل پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) کے جائزے اور تیز تر عملدرآمد کیلئے 2025 میں ایس ڈی جی سمٹ طلب کریں۔
وزیراعظم عمران خان نے کورونا کی عالمی وبا کے درپیش چیلنج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو کوویڈ۔19، اس سے منسلک اقتصادی بحران اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث لاحق خطرات کے سہ جہتی چیلنج کا سامنا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے دنیا کو افغانستان میں منڈلاتے ہوئے بڑے انسانی بحران سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ غیر مستحکم، افراتفری کا شکار افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے لہٰذا آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ افغانستان کے لوگوں کی خاطر موجودہ افغان حکومت کو مضبوط اور مستحکم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامو فوبیا کے خطرناک رحجان کو مل کر روکنے کی ضرورت ہے، اس وقت اسلامو فوبیا کی بدترین اور نہایت سرایت پذیر شکل کا بھارت پر راج ہے، اسلامو فوبیا میں اضافہ کو روکنے کے بارے میں عالمی مکالمے کا اہتمام کیا جائے۔
وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے گھناﺅنے اقدامات جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا انحصار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازعہ کے حل پر منحصر ہے۔