اسلام آباد، بیجنگ، نیویارک: حکومت پاکستان نے افغانستان کے لیے خوراک اور ادویات پر مشتمل امدادی سامان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ چین نے انسانی بنیادوں پر 3 کروڑ ڈالر سے زائد کی امداد کا اعلان کیا ہے۔
بدھ کے روز پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ امدادی سامان پہنچانے کے لیے سی ون 30 طیارے بھیجے جا رہے ہیں۔ پہلی کھیپ ہوائی جہاز کے ذریعے بھیجنے کے بعد مزید سامان زمینی راستے سے بھیجا جائے گا۔
پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ افغان شہریوں کو ترجیح دینا ہو گی اور افغانستان کو اس کے غیرملکی زرمبادلہ ذخائر اور عالمی مالیاتی اداروں تک رسائی نہ دینے سے افغان عوام کے مصائب میں مزید اضافہ ہو گا۔
امریکہ اور جرمنی کی میزبانی میں افغانستان کے حوالے سے منعقدہ وزارتی رابطہ ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے گزشتہ 40 سالوں سے افغانستان میں جاری جنگ و جدل سے شدید متاثر ہوا ہے، افغانستان کا امن و استحکام ہمارے مفاد میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن کے 31 اگست 2021ء کو دیے گئے پیغام کو سراہتے ہیں، ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ آج افغانستان کی صورت حال یکسر بدل چکی ہے، پاکستان ہمسایہ ہونے کے ناطے افغانستان سے علیحدگی اختیار نہیں کر سکتا‘ مستحکم اور پرامن افغانستان ہی عالمی برادری کا بہتر شراکت دار بن سکتا ہے۔
ادھر چین کے وزیر خارجہ وینگ یائی نے افغانستان میں سفارت کاروں سے ویڈیو کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان کی معاشی اور انسانی بنیادوں پر امداد کریں۔
چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’ہم افغانستان کی خودمختاری اور آزادی کا احترام کرتے ہوئے ملکی ترقی کے لیے ان کی مدد کریں گے، خوراک، ویکسین اور ادویات کی مد میں 3 کروڑ ڈالر سے زائد (20 کروڑ یوآن) امداد فراہم کی جائے گی جبکہ ویکسین کی 30 لاکھ خوراکیں بھی عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
سی پیک میں شمولیت کے خواہاں ہیں: افغان طالبان
طالبان کے کنٹرول کے بعد پاک افغان تجارت میں نمایاں اضافہ
طالبان کی قومی خزانے تک رسائی روک دی گئی، عالمی امداد معطل، 9 ارب ڈالر منجمد
طالبان کنٹرول کے بعد انڈیا افغانستان تجارت بند، مودی حکومت کو کتنے ارب ڈالر نقصان ہو گا؟
دوسری جانب اقوام متحدہ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان کو زمینی راستے کے زریعے جلد امداد کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔
گزشتہ روز وڈیو کانفرنس کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے انسانی امور اور ایمرجنسی ریلیف کوآرڈی نیٹر مارٹن گریفتھس نے بتایا کہ ’ہم افغانستان کو زمینی راستے کے ذریعے دیگر ممالک سے امدادی سامان کی فراہمی کا آغاز کریں گے تاہم امدادی سامان کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے نئی افغان حکومت کو سکیورٹی فراہم کرنا ہو گی۔‘
انہوں نے کہا چونکہ امداد فراہمی کے سلسلے میں سکیورٹی کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اقوام متحدہ کے عہدیدار طالبان سے زبانی وعدوں کی بجائے تحریری معاہدے پر غور کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کی امدادی تنظیموں کو آزادانہ تخمینے، سامان کی فراہمی اور نگرانی کرنے کیلئے بین الاقوامی انسانی امداد کے کارکنوں اور ان کے خاندانوں کے تحفظ کی ضرورت ہے۔
مارٹن گریفتھس نے تصدیق کی کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے کمشنر فلپو گرینڈی افغانستان جا رہے ہیں اور امید ہے کہ انہیں کابل سے جنوبی صوبہ قندھار تک سفر کرنے کی اجازت ہو گی۔
اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں تقریباً نصف آبادی یا ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے اور ان کی مدد کے لیے رواں سال کے اختتام تک 60 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی ضرورت ہے، رواں سال کشیدگی کے باعث 6 لاکھ افغان شہری بے گھر ہوئے ہیں۔