روم: اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے انتباہ کیا ہے کہ حالیہ خشک سالی، مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام کے بعد افغانستان کو بھوک کے بحران کا سامنا ہے، لہٰذا سال کے اختتام تک ایک کروڑ 40 لاکھ افراد کی مدد کے لیے 20 کروڑ ڈالر فوری طور پر درکار ہوں گے۔
ڈبلیو ایف پی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ تین سالوں میں افغانستان میں ہونے والی دوسری خشک سالی نے فصلوں کو تباہ کر دیا ہے اور غذائی عدم تحفظ کو بڑھا دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں رواں سال ملک کی 40 فیصد سے زائد فصلیں خشک سالی سے ضائع ہو گئیں جبکہ کورونا وائرس کی وبا کے سماجی و معاشی اثرات نے ضروری خوراک بہت سے خاندانوں کی پہنچ سے دور کر دی ہے۔
دریں اثنا سال کے آغاز کے بعد سے تنازعات اور عدم تحفظ کے باعث 5 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ افغان شہری نقل مکانی پر مجبور ہو گئے اور رواں ماہ کے آغاز سے تقریباََ 70 ہزار بے گھر افراد ملک بھر سے دارالحکومت کابل میں جمع ہو چکے ہیں۔
ڈبلیو ایف پی کے ریجنل ڈائریکٹر جان آئیلیف نے نشاندہی کی کہ افغانستان میں ایک کروڑ 40 لاکھ افراد خوراک کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ گزشتہ چند ماہ میں گندم کی قیمت میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رواں ماہ ڈبلیو ایف پی افغانستان کے چوتھے بڑے شہر مزارشریف اور اس کے آس پاس تقریباََ 5 لاکھ افراد تک گندم کا آٹا، تیل، دال اور نمک پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ڈبلیو ایف پی نے کہا کہ یہ افغانستان کی مدد کرنے کا وقت ہے، اس لیے عالمی برادری کو آگے بڑھنے اور ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے نے افغانستان، ایران، پاکستان اور تاجکستان میں موجودہ ضروریات کے لیے فنڈنگ کو انتہائی ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے افغانستان کے لیے 20 کروڑ ڈالر جبکہ پڑوسی ممالک کے لیے 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے فنڈز کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ 15 اگست کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد کئی ممالک کے ساتھ افغانستان کی تجارت رک گئی تھی اور متعدد عالمی مالیاتی اداروں نے بھی طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان کیلئے مالی امداد معطل کر دی ہے جس کی وجہ سے جنگ زدہ ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔