’عید کی چھٹیوں میں خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات پر 27 لاکھ سیاحوں کی آمد، 27 ارب کا کاروبار ہوا‘

988

پشاور: عیدالاضحیٰ کی تعطیلات کے دوران خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات پر 27 لاکھ 70 ہزار سیاحوں کی آمد ہوئی جس سے محکمہ سیاحت کو 4 ارب روپے آمدن ہوئی ہے۔

محکمہ سیاحت خیبرپختونخوا کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وبا کے باعث عائد پابندیوں کے باوجود بڑی تعداد میں سیاحوں نے عید پر سیاحتی مقامات کا رخ کیا جس سے مقامی معیشت کو مجموعی طور پر 27 ارب سے زائد کا فائدہ پہنچا اور محکمے کو 4 ارب روپے آمدن ہوئی۔

محکمہ سیاحت کے ترجمان کے مطابق عید کی چھٹیوں کے دوران ساڑھے پانچ لاکھ گاڑیاں مالاکنڈ ڈویژن میں داخل ہوئیں، گلیات میں دو لاکھ سے زائد گاڑیاں اور 10 لاکھ سے زائد سیاح داخل ہوئے جبکہ 17 جولائی سے 24 جولائی تک وادی کاغان میں تین لاکھ سے زائد گاڑیاں داخل ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیے:

وبا سے عالمی سیاحت کو 40 کھرب ڈالر نقصان کا خدشہ

ترک سرمایہ کاروں کا پاکستان کے سیاحتی شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کیلئے اظہارِ دلچسپی

سپیشل کنیکٹیوٹی پروجیکٹ: حکومت کا دور دراز سیاحتی مقامات پر بہترین انٹرنیٹ فراہمی کا منصوبہ

یہ پہلا موقع تھا جب 10 لاکھ 50 ہزار سے زائد سیاحوں نے سوات کا رخ کیا جبکہ گلیات کی جانب 10 لاکھ جبکہ ایک لاکھ 20 ہزار سیاح کمراٹ میں داخل ہوئے، وادی کاغان میں 7 لاکھ سے زائد جبکہ 50 ہزار سیاحوں کی چترال آمد ہوئی  اور ایک لاکھ سیاحوں نے شمالی وزیرستان کا رخ کیا۔

محکمہ سیاحت کا کہنا ہے کہ کالام، بحرین، سوات، ہنزہ اور دیگر علاقوں میں ہوٹل مکمل طور پر بُک تھے اور سیاحوں کا رش دیکھتے ہوئے مقامی لوگوں نے خیمہ بستیاں بسا کر اور اپنے گھر یا کمرے کرائے پر دے کر اچھی خاصی کمائی کی جس سے مقامی معیشت کو کروڑوں کا فائدہ پہنچا اور نوجوانوں کو روزگار ملا۔

ایک جانب لاکھوں سیاحوں کی آمد سے جہاں مقامی معیشت کو اربوں کا فائدہ پہنچا وہاں ملک کے دور دراز شہروں سے جانے والے ناکافی سہولیات کی شکایت کرتے بھی نظر آئے۔

کراچی سے آئے ہوئے سیاحوں کے ایک گروپ نے بتایا کہ ’’یہاں رہائش کی سہولتیں ناکافی ہیں، غیرملکی سیاحوں کو راغب کرنے کیلئے صوبائی حکومت کو چاہیے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ ہوٹل تعمیر کرائے۔‘‘

انہوں نے محکمہ سیاحت کو تجویز دی کہ موجودہ سیاحتی مقامات پر رش کم کرنے کیلئے مزید ٹورسٹ سائٹس کو ترقی دینا اور وہاں تمام سہولتیں باہم پہنچانا ضروری ہے، صوبائی حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here