کرنٹ اکائونٹ خسارہ 10 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا

مالی سال 2020-21ء میں پاکستان کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کے 0.6 فیصد کے برابر رہا، زرمبادلہ ذخائر گزشتہ ساڑھے چار سال کی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کیے گئے

1692

اسلام آباد: گزشتہ مالی سال 2020-21ء کے دوران پاکستان کا مجموعی کرنٹ اکائونٹ خسارہ 10 سال کی کم ترین سطح پر رہا جبکہ جون 2021ء میں ملکی برآمدات بلند ترین سطح کے قریب رہیں۔

درآمدی بل میں مشینری جیسی بڑی درآمدات کا بڑا حصہ رہا جو مستقبل میں پائیدار نمو کا اہم جزو ثابت ہو گا، یہ رجحان ملک میں سرمایہ کاری کی صورت حال میں بہتری کی عکاسی کرتا ہے۔ جون میں سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر سے زائد رہے جو گزشتہ ساڑھے چار سال کی بلند ترین سطح ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے مالی سال 2020-21ء کیلئے کرنٹ اکائونٹ کا جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ زیر جائزہ مالی سال کے دوران کرنٹ اکائونٹ خسارہ 1.85 ارب ڈالر تھا جو جی ڈی پی کا 0.6 فیصد ہے۔ یہ 10 سال میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ کی کم ترین سطح ہے۔

سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کی صورت حال بینک کی توقعات کے مطابق رہی ہے، قبل ازیں اعلان کیا گیا تھا کہ مالی سال 2021ء کیلئے کرنٹ اکائونٹ خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کے ایک فیصد سے کم رہنے کا امکان ہے۔

مالی سال 2018ء میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.8 فیصد اور مالی سال 2017ء میں جی ڈی پی کا 4.1 فیصد ریکارڈ کیا گیا تھا۔

سٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 2021ء میں ترسیلات زر اور مصنوعات کی برآمدات بلند ترین سطح پر ریکارڈ کی گئیں، ناصرف کرنٹ اکائونٹ خسارہ کی سطح نیچے رہی بلکہ ماضی کی نسبت اِس کی نوعیت بھی مختلف تھی۔

مالی سال 2017-18ء میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ غیرپائیدار تصرف میں اضافے کی وجہ سے ہوا جبکہ مالی سال 2021ء میں درآمدی بل میں کیپٹل درآمدات جیسا کہ مشینری کی درآمد کا بڑا حصہ تھا جو مستقبل میں نمو کیلئے بہت اہم ہے۔

سٹیٹ بینک کے مطابق کم بچت کے حامل اور نمو کی بحالی کی جانب گامزن پاکستان جیسے ملک کیلئے کرنٹ اکائونٹ خسارہ معمول کی بات ہے۔ اس حوالے سے دو چیزیں اہم ہیں کہ یہ بہت زیادہ نہیں ہے اور ملک غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی لائے بغیر اس کو فنانس کرنے کے قابل ہے۔

پاکستان کا مارکیٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ سسٹم 2019ء میں متعارف کرایا گیا تھا جو اس بات کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کرے گا کہ کرنٹ اکائونٹ ماضی کی طرح غیر مستحکم نہ بنے۔

مرکزی بینک کے مطابق ماضی میں یہ میکنزم موجود نہیں تھا بلکہ ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی سطح پر رکھا گیا تھا جس کے نتیجے میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ مسلسل بڑھتا رہا اور درآمدی بل کی ادائیگی کیلئے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر خرچ ہوتے رہے اس طرح ملک کو مجبوراً آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا۔

اعدادوشمار کے مطابق جون 2021ء میں سٹیٹ بینک کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر سے زائد رہے جو گزشتہ ساڑھے چار سال میں بلند ترین سطح ہے۔

مالی سال 2021ء میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 1.2 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اس کے برعکس مالی سال 2017ء اور مالی سال 2018ء میں ان میں بالترتیب 2 ارب ڈالر اور 6.4 ارب ڈالر کی کمی آئی تھی۔

سٹیٹ بینک کی طرف سے جون 2021ء کے حوالے سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق کرنٹ اکائونٹ خسارہ مئی میں 0.7 ارب ڈالر جبکہ جون میں 1.6 ارب ڈالر رہا۔ مصنوعات اور خدمات کی برآمدات اور ترسیلات زر مئی کے مقابلے میں زیادہ رہیں جو بالترتیب 45 کروڑ 80 لاکھ ڈالر اور 19 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھیں۔ مصنوعات کی برآمدات جون میں 10 سال کی بلند ترین سطح کے قریب رہیں۔

اسی طرح مئی کے مقابلے میں مصنوعات و خدمات کی درآمدات 1.6 ارب ڈالر تک بڑھیں۔ اس میں بعض درآمدات وقتی نوعیت کی ہوتی ہیں کیونکہ عموماً مالی سال کے اختتام پر ادائیگیوں کی وجہ سے بھی جون میں درآمدات بڑھ جاتی ہیں۔

علاوہ ازیں تیل کی زیادہ درآمدات (289 ملین ڈالر)، کووڈ ویکسین کی درآمدات (109 ملین ڈالر) اور مشینری جیسی مصنوعات کی بلند سطح کی درآمدات (356 ملین ڈالر) کی وجہ سے بھی مئی کے مقابلے میں جون میں درآمدی بل زیادہ رہا۔ یہ رجحان ملک میں سرمایہ کاری کی صورت حال میں بہتری کی عکاسی کرتا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here