گیس مکمل بحال، غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ ختم کر دی، وزیر توانائی کا دعویٰ

تربیلا ڈیم میں پانی کی کمی سے پیداواری یونٹ بند، بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ جاری، عوام ایک بار پھر یو پی ایس اور جنریٹرز خریدنے پر مجبور ہو گئے

512
MINSTER FOR INDUSTRIES AND PRODUCTION MUHAMMAD HAMMAD AZHAR SPOKE ON THE RETRENCHMENT PLAN FOR EMPLOYEES AND FUTURE OF PAKISTAN STEEL MILL ON NOVEMBER 28, 2020.

اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں ایل این جی کی 100 فیصد فراہمی بحال کر دی گئی ہے۔

سوموار کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک بیان میں حماد اظہر کا کہنا تھا تمام شعبوں کو معمول کے مطابق گیس کی مکمل پریشر کے ساتھ فراہمی بحال کر رہے ہیں، آر ایل این جی کی 100 فیصد فراہمی بھی بحال ہو گئی ہے، سوئی سدرن کے سسٹم کو بھی گیس کی کمی کا سامنا نہیں۔

انہوں کہا کہ تربیلا ڈیم میں پانی کی کمی کی وجہ سے بجلی کی کمی ہوئی جس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا تاہم جمعہ کی شام سے ملک میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی۔ مزید دو روز میں بجلی کی پیداوار بڑھ جائے گی۔

دوسری جانب سندھ بھر میں دو ہفتوں کی بندش کے بعد سی این جی سٹیشنز کھول دیے گئے ہیں جبکہ ایل این جی سٹیشن بھی سوموار سے معمول کی سرگرمیاں بحال کر چکے ہیں۔

واضح رہے کہ 30 جون کو آر ایل این جی ٹرمینل کی ڈرائی ڈاکنگ کی وجہ سے سوئی سدرن گیس کمپنی کے سسٹم کو گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے گھریلو صارفین کے ساتھ صنعتی صارفین بھی متاثر ہوئے۔

اس سے قبل ترجمان وزارت توانائی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ 5 جولائی سے آر ایل این جی کا پہلا ٹرمینل فعال ہو جائے گا، گیس کی قلت کے دورانیے میں گھریلو، کمرشل صارفین، پاور سیکٹر اور برآمدی صنعتوں کو بلاتعطل گیس فراہم کی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ قلت کے دنوں میں گھریلو صارفین کمرشل اور پاور سیکٹر کو بلا تعطل گیس فراہم کی جائے گی، قلت کے باوجود برآمدی صنعتوں کو بھی بلاتعطل گیس دی جائے گی جبکہ گیس کی کمی سے نمٹنے کے لئے سی این جی، سیمنٹ سیکٹر اور نان ایکسپورٹ انڈسٹری کو گیس فراہمی محدود کر دی گئی ہے۔

دوسری جانب تربیلا ڈیم میں پانی کی کمی کی وجہ سے پیداواری یونٹ بند ہونے کے باعث بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ نے بھی عوام کو امتحان میں ڈال رکھا ہے، شہروں اور دیہاتوں میں کئی کئی گھنٹے بجلی بند رہنے کی وجہ سے عوام ایک بار پھر یو پی ایس اور جنریٹرز خریدنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here