لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے ریٹائرمنٹ کی پانچ سال بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ملازمین کو محکمانہ ترقی کا اہل قرار دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس انوار حسین نے مسعود خان و دیگر کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے چھ صفحات پر مشتمل فیصلہ میں ایف بی آر کو درخواست گزار کی ترقی کے معاملے کا دوبارہ جائزہ لینے کا حکم دیتے ہوئے ایف بی آر چیئرمین کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انتظامی نقائص کے باعث کسی سرکاری ملازم کی ترقی نہیں روکی جا سکتی، انتظامی وجوہات کی بناء پر درخواست گزاروں کی ترقی نہیں ہوئی جس میں ان کا کوئی قصور نہیں۔
درخواست گزار مسعود خان سمیت دیگر نے ریٹائرمنٹ کے پانچ سال بعد ترقی کے لیے دائر درخواست میں نشاندہی کی کہ 15 برس تک آیف بی آر میں بطور سپروائزر کام کے بعد 2015ء میں ریٹائرڈ ہوئے، میرٹ پر پورا اترنے کے باوجود 15 برسوں میں محکمانہ ترقی نہیں ہو سکی۔
ایف بی آر نے اپنی تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سپروائزر کی پوسٹ کو گریڈ 13 سے گریڈ 16 میں اَپ گریڈ کیا، ایف بی آر نے رولز میں تبدیلی کے لیے معاملہ اسٹبلشمنٹ ڈیژن کو بھجوایا جو تاحال اسٹبلشمنٹ ڈویژن کے پاس زیر التواء ہونے کے باعث 2016ء تک محکمانہ ترقی کمیٹی کا اجلاس ہی نہیں ہو سکا اور درخواست گزاروں کی 2015ء میں ریٹائرمنٹ کے باعث ترقی نہیں ہو سکی۔
ایف بی آر کے وکیل نے موقف اپنایا کہ بی آر ڈی پی سی صرف حاضر سروس ملازم کی ترقی کا جائزہ لے سکتی ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد درخواست گزار ترقی کے حق دار نہیں ہیں، کیس کے میرٹ پر فیصلہ کرنے سے پہلے درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ کرنا ضروری ہے۔
فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سول سرونٹ رولز کے حوالے سے سروس ٹریبونل اس کیس کو سننے کا اصل فورم ہے تاہم سرکاری ملازمین کی ترقی کے حوالے سے سروس ٹریبونل کا دائر اختیار محدود ہے، ریکارڈ کے مطابق 2011ء میں سپروائزر کی پوسٹ کو سپرنٹنڈنٹ میں اَپ گریڈ کر دیا گیا تھا۔
عدالت نے قرار دیا کہ درخواست گزار اَس وقت حاضر سروس تھے اور ترقی کے حق دار بھی تھے، عدالت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو درخواست گزاروں کی ترقی کی درخواست کا دوبارہ جائزہ لینے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ اگر درخواست گزاروں کو دوبارہ سنا جاتا ہے تو اس سے کسی حاضر سروس ملازم کی سنیارٹی متاثر نہیں ہو گی۔