اسلام آباد: گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا ہے کہ موثر مالیاتی اقدامات کی بدولت قومی معیشت مستحکم ہوئی ہے اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، معاشی ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کا وقت آ چکا ہے۔
اقتصادیات پر نظر رکھنے والے عالمی جریدے ’’بلوم برگ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر رضا باقر نے کہا کہ معاشی ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کے مقام تک پہنچ چکے ہیں، مہنگائی میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے شرح سود میں ردوبدل نہیں کیا اور اسے سات فیصد پر برقرار رکھا ہے۔
زری پالیسی سے متعلق سوال کے جواب میں رضا باقر نے کہا کہ مانیٹری پالیسی کے حالیہ اجلاس میں تین بنیادی امور کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، سب سے پہلے پاکستان میں مانیٹری پالیسی کا سٹارٹ ریٹ مجموعی طور پر بہترین ہے، ہمارا پالیسی ریٹ سات فیصد ہے اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے کس طرح کے اقدامات کئے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے دوسرا اہم فیصلہ یہ کیا کہ پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی، اس فیصلہ کے پس پردہ چند اہم عوامل کار فرما ہیں جن میں کووڈ۔19 کے حوالہ سے غیریقینی صورت حال کے علاوہ مہنگائی میں حالیہ اضافہ بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
وبا کے بعد پاکستانی معیشت کے کس کس شعبے میں ترقی متوقع ہے؟
عالمی اداروں کے تخمینے کے برعکس پاکستان کی معاشی شرح نمو 3.94 فیصد رہنے کا امکان
‘اسی طرح مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں جس تیسرے اہم امر کا جائزہ لیا گیا وہ مستقبل کے حوالہ سے رہنمائی کے حوالے سے تھا۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ بعض غیر مرئی عوامل کے تناظر میں زری پالیسی میں تبدیلی نہیں کی جائے گی، اگر مستقبل میں طلب کی وجہ سے دبائو بڑھا تو کمیٹی یہ فیصلہ کرے گی کہ زری پالیسی میں تبدیلی کی جائے یا نہ کی جائے۔’
ڈاکٹر رضا باقر کے بقول ‘مانیٹری پالیسی کمیٹی کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کووڈ۔19 کی وجہ سے غیر یقینی کی حالیہ صورت حال کے تناظر میں ایمرجنگ مارکیٹس میں زری پالیسی کے استحکام کی ضرورت ہے اور اس میں رد و بدل کا فیصلہ مارکیٹ کی صورت حال کے تحت کیا جائے گا۔’
عوام کی مالی مدد کیلئے اقدامات کے حوالہ سے مرکزی بینک کو حکومت کی معاونت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کو عالمی بینک سمیت کئی بین الاقوامی اداروں نے سراہا، عالمی بینک نے احساس کیش پروگرام کو زیادہ سے زیادہ افراد تک رسائی کے حوالہ سے دنیا بھر میں چوتھا بڑا جبکہ آبادی کے زیادہ سے زیادہ حصہ تک رسائی کے حوالہ سے دنیا کا تیسرا بڑا پروگرام قرار دیا۔
انہوں نے بتایا کہ احساس کیش پروگرام کے آغاز پر گورننس کے حوالہ سے تین چار عناصر پر خصوصی توجہ دی گئی تاکہ کووڈ۔19 کے اثرات کو موثر طور پر کنٹرول کیا جا سکے۔
سب سے پہلے کورونا کیسز میں کمی پر توجہ مرکوز کی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ آبادی کو وائرس سے تحفظ فراہم کیا جا سکے، پاکستان میں کورونا کیسز کی شرح 12 فی ملین ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ تناسب فی ملین 62 ہے، اگر دیگر ممالک کو دیکھیں تو برازیل میں کورونا کے نئے کیسز رپورٹ ہونے کی شرح 375 فی ملین ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے موثر اقدامات کا نتیجہ ہے کہ ملک میں کورونا سے متاثر مریضوں کی شرح کو کم رکھنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ کووڈ۔ 19 کی وبا کے دوران توجہ مالی معاونت کے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام پر مرکوز رہی جبکہ اس کے بعد مالیاتی استحکام کے اقدامات کئے گئے، حکومت نے عوامی معاونت کیلئے مجموعی قومی پیداوار کے پانچ فیصد کے مساوی مالیاتی پیکج کا اعلان کیا۔
ڈاکٹر رضا باقر نے کہا کہ آئی ایم ایف کی اکنامک آئوٹ لُک رپورٹ کے مطابق سال 2020 میں عالمی سطح پر جی ڈی پی کی مناسبت سے قرضوں کی شرح میں اوسطاً 10 فیصد اضافہ ہوا لیکن پاکستان کے جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک نے قبل ازیں تین فیصد معاشی بڑھوتری کا اندازہ لگایا تھا لیکن نیشنل اکائونٹس کمیٹی کے مطابق قومی معیشت کی شرح ترقی 3.94 فیصد رہی ہے جس کی بنیادی وجہ زرعی پیداوار میں اضافہ اور سٹیٹ بینک کے بہترین مالیاتی اقدامات ہیں۔
گورنر سٹیٹ بینک کے مطابق ’حکومت پاکستان کے موثر مالیاتی اقدامات سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھنے سے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری اور کاروبار میں نمایاں اضافہ ہوا، مالیاتی نظم و ضبط اور استحکام سے پاکستان کی معیشت میں دیگر ممالک کی نسبت یہ شرح بہتر ہے۔‘
افراط زر کے حوالہ سے سوال کے جواب میں رضا باقر نے کہا کہ ہم نے چند ماہ قبل اعلان کیا تھا کہ رواں مالی سال کیلئے پاکستان میں مہنگائی کی شرح 7 فیصد تا 9 فیصد رہنے کا امکان ہے، مہنگائی کی حالیہ شرح 11 فیصد کے قریب ہے جبکہ چند ماہ قبل یہ 6 فیصد تھی تاہم رواں مالی سال کے اختتام تک مہنگائی کی شرح 9 فیصد کے قریب رہنے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں رسد کی صورت حال بہتر ہے اور صارفین کیلئے قیمتوں کے اعشاریہ میں اضافہ غذائی اشیاء اور توانائی کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے ہوا ہے، اگر طلب اور رسد میں فرق کی وجہ سے سی پی آئی میں رد و بدل ہوتا ہے تو اس کیلئے اقدامات کرنے کو تیار ہیں تاہم اس وقت مارکیٹ میں طلب اور رسد میں توازن ہے۔
زرمبادلہ ذخائر، کرنٹ اکائونٹ کے بارے میں پاکستان کے پالیسی اقدامات اور آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے سوال کے جواب میں رضا باقر نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام اس وقت معاشی استحکام سے شرح نمو میں بڑھوتری کے مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے، سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے قبل جتنے بھی آئی ایم ایف پروگرامز میں کام کیا ہے ان کے مقابلہ میں پاکستان کی کارکردگی نمایاں حد تک بہتر رہی ہے۔
گورنر سٹیٹ بینک کا مزید کہنا تھا کہ ’ہماری معیشت مستحکم ہوئی ہے، آئی ایم ایف پروگرام میں شرکت سے قبل ہمارا کرنٹ اکائونٹ خسارہ 19 ارب ڈالر تھا جو اب 90 کروڑ ڈالر سرپلس ہو چکا ہے، اسی طرح آئی ایم ایف پروگرام سے قبل زرمبادلہ ذخائر 7.2 ارب ڈالر تھے جو اب 16 ارب ڈالر تک بڑھ چکے ہیں اس طرح زرمبادلہ کے ذخائر میں دو گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ قرضے وصول کر کے نہیں ہوا بلکہ بہترین اور اعلیٰ معیار کے مالیاتی نظم و ضبط کے اقدامات کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ کسی بھی قومی معاشی پروگرام کے تحت معاشی ترقی اہم ہے اور ملک کی معاشی ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے چاہئیں۔ اس وقت ہم اس مقام تک پہنچ چکے ہیں۔ قومی معیشت کی شرح ترقی کا چار فیصد کا نظرثانی شدہ تخمینہ اس امر کا غماز ہے کہ ہماری پالیسی کامیاب رہی ہے۔