اسلام آباد: دنیا بھر میں گزشتہ 20 سالوں کے دوران فرانس کے مجموعی رقبہ کے مساوی جنگلات بحال ہوئے ہیں۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ماہرین کی قیادت میں ایک تحقیقی ٹیم نے سیٹیلائٹ ڈیٹا کی مدد سے بحال ہو جانے والے جنگلات کا نقشہ تیار کیا ہے۔
تحقیق کے مطابق سال 2000ء سے 2020ء تک کے 20 سالوں کے دوران دنیا بھر میں ایک بڑے رقبے پر جنگلات فطری طور پر دوبارہ اگ آئے ہیں اور ان جنگلات کا رقبہ فرانس کے مجموعی رقبہ کے مساوی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ کے مطابق دوبارہ پیدا ہو جانے والے یہ جنگلات 5.9 گیگا ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کر سکتے ہیں۔ ماحول کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی تنظیموں نے اس حوالہ سے کہا ہے کہ یہ بحال ہونے والے جنگلات کاربن ڈائی آکسائڈ کی جتنی مقدار کو جذب کر سکتے ہیں وہ امریکہ کے سالانہ اخراج سے بھی زیادہ ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی قیادت میں تحقیق کرنے والے ماہرین کی ایک ٹیم نے سیٹیلائٹ ڈیٹا کی مدد سے بحال ہو جانے والے جنگلات کا ایک تفصیلی نقشہ تیار کیا ہے۔ تحقیق کے مطابق جنگلات کے دوبارہ اگنے کے عمل میں بہت ہی معمولی انسانی کوشش کارفرما رہی اور فطری طور پر درختوں سے بھرے قدرتی علاقے بحال ہوئے ہیں۔ جنگلات کی بحالی کے اس طریقہ کار کے تحت اُن علاقوں کو مکمل طور پر فطرت کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
ان علاقوں میں نئے مقامی درخت لگائے جاتے ہیں نہ مویشیوں کو جانے سے روکنے کی باڑیں لگائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے پودوں کو بھی وہاں سے اکھاڑا نہیں جاتا جو مقامی درختوں کو نقصان پہنچاتے ہیں یعنی ان علاقوں کو مکمل طور پر فطرت کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف سے منسلک ولیم بالڈون نے اس حوالہ سے کہا ہے کہ شجرکاری کے مقابلہ میں جنگلات کی بحالی کا یہ فطری طریقہ سستا ہے جبکہ یہ کاربن اور حیاتیاتی تنوع کے لئے بھی بہتر ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ جنگلات کی فطری طریقہ سے بحالی کے بارے میں ضرورت سے زیادہ توقعات بھی وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ آب و ہوا میں خطرناک تبدیلیوں سے بچنے کے لئے ہمیں جنگلات کی کٹائی روکنا ہو گی اور قدرتی جنگلات کو بحال کرنا ہو گا۔
دوسری جانب ولیم بالڈون نے کہا کہ ہر سال لاکھوں ہیکٹر رقبہ پر جنگلات ختم ہو رہے ہیں جو ان کی بحالی کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی کے مسئلہ کو حل کرنے میں جنگلات کی اہمیت اور کردار کو اجاگر کرنے کے لئے ہمیں آب و ہوا کی بہتری کے منصوبوں سے مدد اور تعاون کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہر صورت میں ان وجوہات کا مقابلہ کرنا ہو گا جو جنگلات کے خاتمہ کا سبب بنتی ہیں۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ برازیل کے اٹلانٹک جنگل نے امید کی ایک کرن پیدا کی ہے۔ اس جنگل کا رقبہ ہالینڈ کے رقبہ جتنا ہے اور سال 2000ء کے بعد سے یہ جنگل دوبارہ پھل پھول رہا ہے۔
اس کے علاوہ شمالی منگولیا کے بوریئل جنگلات بھی گزشتہ 20 سال کے دوران بحال ہوئے ہیں۔ یہ جنگلات 12 لاکھ ہیکٹر رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس عرصہ کے دوران وسطی افریقہ اور کینیڈا کے بوریئل جنگلات بھی فطری طریقہ سے ہی بحال ہوئے ہیں۔ تاہم رپورٹ میں تحقیق کاروں نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں جنگلات کو اب بھی بڑے خطرات کا سامنا ہے۔
برازیل سمیت دنیا کے کئی علاقوں میں جنگلات کی بحالی کی حوصلہ افزاء حقیقت کے باوجود جنگلات کی کٹائی اس قدر زیادہ ہوئی ہے کہ اب تک بحال ہونے والے علاقوں سے دگنے رقبہ پر جنگلات کی بحالی ضروری ہے تا کہ دنیا کو جنگلات کی بنیادی ضرورت تک پہنچایا جا سکے۔
واضح رہے کہ جنگلات کو فطری طور پر بحال کرنے کا یہ ایک مشترکہ منصوبہ ہے جس میں ڈبلیو ڈبلیو ایف، برڈ لائف انٹرنیشنل اور ڈبلیو سی ایس وغیرہ شامل ہیں۔ ان اداروں کی جانب سے دیگر ماہرین کو بھی دعوت دی گئی ہے کہ وہ ان کے بنائے ہو نقشے کو مزید بہتر بنانے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
سیٹلائٹ ڈیٹا کی مدد سے بنائے گئے اپنے نقشہ کے بارے میں ان اداروں کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق کی ایک ابتدائی کوشش ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار کم کرنے کے لیے درخت لگانا آسان اور سادہ کام ہے لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائڈ کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مناسب جگہ پر صحیح درخت لگائے جائیں۔