تاجروں کا کاٹن یارن پر 1.5 فیصد ٹرن اوور ٹیکس سے استثنی کا مطالبہ

کورونا کی وجہ سے تاجروں کو شدید مالی مشکلات درپیش،1.5 ٹرن اوور ٹیکس پر نظر ثانی کرتے ہوئے 0.1 فیصد کی سابقہ شرح بحال کی جائے، پائما کا چیئرمین ایف بی آر کو خط

700

اسلام آباد: پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن نے 1.5 فیصد ٹرن اوور ٹیکس سے استثنیٰ  اور 0.1 فیصد ٹرن اوور ٹیکس کی شرح بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن (پائما) نے چیئرمین ایف بی آر محمد جاوید غنی کے نام لکھے گئے ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ یارن کے تاجروں پر عائد 1.5 ٹرن اوور ٹیکس پر نظر ثانی کرتے ہوئے 0.1 فیصد کی سابقہ شرح بحال کی جائے کیونکہ کورونا وائرس کی وبا سے یہ شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور تاجروں کو شدید مالی مشکلات درپیش ہیں۔

پائما کے وائس چیئرمین اور ایف پی سی سی آئی یارن ٹریڈنگ قائمہ کمیٹی کے کنوینر محمد فرحان اشرفی نے چیئرمین ایف بی آر جاوید غنی کو ارسال کیے گئے ایک خط میں نشاندہی کی ہے کہ 2 مئی 2011ء کو یارن کے تاجروں کو 0.1 فیصد کی شرح سے ٹرن اوور ٹیکس ادائیگی کی سہولت دی گئی تھی، کم سے کم ٹیکس کی اس شرح کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی شق 45 اے سیکنڈ شیڈول کے تحت جاری کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں ٹرن اوور ٹیکس کی شرح میں تبدیلی کر دی گئی۔

سابق وائس چیئرمین پائما خرم بھراڑہ نے اس حوالے سے کہا کہ فنانس ایکٹ 2020ء کے ذریعے ایک ترمیم کی گئی جس کے تحت یارن تاجروں کو شق 45 اے (حصہ چہارم) کے دوسرے شیڈول کے دائرے سے باہر کر دیا اور دفعہ 113 کے تحت کم سے کم ٹرن اوور ٹیکس کی چھوٹ واپس لے لی گئی اور یارن کے تاجروں پر 0.1 فیصد کی بجائے 1.5 فیصد کی شرح سے ٹرن اوور ٹیکس عائد کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہائی والیوم بزنس کے باوجود یارن کے ٹریڈرز کا منافع صرف 0.5 سے ایک فیصد تک ہوتا ہے لہٰذا وہ اتنے کم منافع میں سے 1.5 فیصد ٹرن اوور ٹیکس کی ادائیگی کے حوالہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔

فرحان اشرفی نے چیئرمین ایف بی آر جاوید غنی سے مطالبہ کیا کہ پہلے شیڈول پارٹ ون (ڈویژن IX) کے تحت یارن کے تاجروں کے لیے 0.1 فیصد کی کم سے کم ٹیکس کی شرح کو بحال کیا جائے اور انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 113 کے تحت یارن کے تاجروں کو کم از کم 1.5 فیصد ٹیکس سے استثنی دیا جائے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں ٹیکسٹائل کر برآمدکنندگان کو کپاس کی قلت کے باعث دھاگے کی مقامی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے جس کے  باعث وہ اسے درآمد کرنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے برآمدی آرڈرز بھی تاخیر کا شکار ہیں۔

ٹیکسٹائل برآمدکنندگان کی انہی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزارت تجارت کی سمری پر بھارت سے کپاس اور دھاگا درآمد کرنے کی اجازت دی تھی جس کا صنعتکاروں اور برآمدکنندگان کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا لیکن وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے بھارت سے کسی قسم کی تجارت کھولنے کی اجازت دینے کا فیصلہ مسترد کر دیا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here