اسلام آباد: وزارت خزانہ کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ سٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ء میں مرکزی بینک کو احتساب سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
ایک بیان میں وزارت خزانہ کے ترجمان نے سٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ء کے بارے میں میڈیا رپورٹس کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ مجوزہ ایکٹ کے ذریعے سٹیٹ بینک کو کسی بھی ادارے، خاص طور پر ملک سے باہر، مالیاتی یا غیر مالیاتی نجی معلومات کا تبادلہ کرنے کے لئے لامحدود طور پر بااختیار بنایا جا رہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ معلومات کے تبادلے کے لئے بعض پروٹوکولز کی پیروی کی جاتی ہے۔ باہمی یاد داشتوں (ایم او یوز) کے ذریعے معلومات کا تبادلہ ایک عام بین الاقوامی طریقہ کار ہے اور سٹیٹ بینک ملکی اور غیر ملکی ریگولیٹری اداروں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنے کے لئے مفاہمت کی دستاویزات پر اتفاق کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح کی معلومات کا تبادلہ مالیاتی اداروں کے ماتحت اداروں اور ان کے سمندر پار آپریشنز کی موثر نگرانی کیلئے ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کابینہ نے سٹیٹ بینک کی انتظامی خودمختاری کا بل منظور کر لیا
وزارت خزانہ کے ترجمان نے کہا کہ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ مجوزہ ترامیم کے تحت وفاقی حکومت کی پیشگی منظوری کے بعد ہی سٹیٹ بینک کو ملکی اور بین الاقوامی نگران حکام کے ساتھ ایم او یوز دستخط کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سٹیٹ بینک نے پہلے سے ہی وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد متعدد بین الاقوامی ریگولیٹری اداروں/مرکزی بینکوں کے ساتھ طویل المعیاد ایم او یوز اور اسی نوعیت کے انتظامات کئے ہیں۔
یاد رہے کہ 9 مارچ 2021ء کو وفاقی کابینہ نے سٹیٹ بنک آف پاکستان (ترمیمی) بل 2021ء کے مسودے کی منظوری دیتے ہوئے اسے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس بل کا جو مقصد بتایا گیا تھا وہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی آپریشنل اور انتظامی خود مختاری کو یقینی بنانا، اس کا دائرہ کار اور اختیارات کو بڑھانا ہے۔
وزارت خزانہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک کے عہدیداروں اور عملے کے ارکان کو نیک نیتی کے ساتھ کیے جانے والے اقدامات پر قانونی چیلنجز سے خسارہ جیسے نقصان یا دیگر مالی بوجھ کے خلاف تحفظ کی فراہمی مرکزی بینک کے قوانین میں عام بات ہے اور اسے بین الاقوامی طور پر بہترین عمل سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسی طرح سینٹرل بینک کے عہدیداروں اور عملے کی خود مختاری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اس طرح کی دفعات دیگر ملکی قوانین میں بھی موجود ہیں۔
مزید برآں متعدد مرکزی بینکوں کے قوانین میں اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ مرکزی بینک کے جائزے یا منسوخی کے مقصد کے لئے اقدامات پر کسی عدالت میں کارروائی کا آغاز نہیں کیا جا سکتا۔
ترجمان نے بتایا کہ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان، نیپال، مالدیپ سمیت سارک ممالک اور دنیا بھر میں 20 سنٹرل بینکس کے قوانین کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ کیے جانے والے اقدامات پر سینٹرل بینکس کے سینئر عہدیداروں اور عملے کو قانونی تحفظ مسلمہ بین الاقوامی معیار و طریقہ کار ہے۔
ترجمان نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے عہدیداروں کے معاملے میں نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کا دائرہ اختیار نہیں ہو گا بلکہ جو تبدیلی کی گئی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ کارروائی شروع کرنے کے لئے سٹیٹ بینک کے بورڈ کی منظوری درکار ہو گی۔
ترجمان نے بتایا کہ مرکزی بینک سے متعلق 14 قوانین واضح طور پر حکومت کو سٹیٹ بینک کو ہدایات دینے کی ممانعت کرتے ہیں اس کا مقصد طے شدہ مقاصد کے حصول کیلئے ایک خود مختار قانونی فریم ورک کی فراہمی ہے۔ لہذا یہ دعویٰ گمراہ کن ہے کہ مجوزہ ایکٹ میں سٹیٹ بینک کو احتساب سے مبرا قرار دیا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کے ترجمان نے کہا کہ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ مجوزہ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ء سٹیٹ بینک کے مقاصد کو واضح اور ان مقاصد کے حصول کے لئے بینک کو زیادہ جواب دہ بھی بناتا ہے۔ مجوزہ ترامیم میں احتساب سے متعلق ایک نئی شق شامل کی گئی ہے جس سے سٹیٹ بینک کو پارلیمان کے سامنے جواب دہ بنایا گیا ہے۔ اس شق کے تحت گورنر سٹیٹ بینک، بینک کے مقاصد و اہداف کی کامیابیوں، مالیاتی پالیسی، معیشت کی حالت اور مالی استحکام سے متعلق سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کا پابند ہے۔
مزید برآں احتساب کے عمل کے ایک حصے کے طور پر ضرورت پڑنے پر پارلیمنٹ سٹیٹ بینک کے کسی سینئر عہدیدار کو مدعو کر سکتی ہے۔ متعدد دوسرے سینٹرل بینکس نے بھی احتساب کے اسی طریقہ کار کو اپنایا ہوا ہے جس میں معیشت کی صورت حال کی رپورٹ پیش کرنے اور گورنر یا بینک کے دیگر اعلیٰ عہدیداروں کا پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہونا شامل ہے۔