بیجنگ: امریکی عدالت چین سے تعلق رکھنے والی موبائل ساز کمپنی شیاؤمی کی بلیک لسٹنگ کا فیصلہ منسوخ کر دیا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے پر پابندی عائد کی تھی جس کے بعد چینی موبائل فون کمپنی شیاؤمی نے عدالت سے رجوع کیا تھا، امریکی فیڈرل جج کے چینی کمپنی کے حق میں فیصلے کے بعد دیگر کمپنیوں نے بھی سرمایہ کاری کی پابندیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا ہے۔
کیس سے متعلق معلومات رکھنے والے وکلاء نے بتایا کہ پابندیوں کا سامنا کرنے والی کچھ چینی کمپنیوں نے سٹیپ ٹو اینڈ جانسن (Steptoe & Johnson) اور ہوگن لوویلز (Hogan Lovells) جیسی لاء فرمز کے ساتھ بات چیت کی ہے۔
سابق صدر کی انتظامیہ نے شیائومی اور ہواوے سمیت دیگر کمپنیوں پر الزامات عائد کیے تھے کہ ان کمپنیوں پر چینی فوج کے اثرورسوخ کی وجہ سے امریکی صارفین کا ڈیٹا چینی فوج کے پاس جانے کا اندیشہ ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے شیاؤمی کارپوریشن کو بلیک لسٹ کرنے کے اقدام کے باعث اس کے مارکیٹ شئیر 10 ارب ڈالر کم ہوئے اور جنوری میں کمپنی کے حصص 9.5 فیصد گراوٹ کا شکار ہوئے تھے، ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام سے سرمایہ کاروں کو کمپنی میں ان کے شئیرز سے مکمل طور پر محروم کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
سٹیپ ٹو اینڈ جونسن کے ہانک کانگ آفس کی مینجنگ پارٹنر وینڈی ویسانگ (Wendy Wysong) نے کہا کہ “بلیک لسٹنگ کو چلینج کرنے اور اسے منسوخ کرانے کے لیے چینی کمپنیاں لاء فرمز سے رجوع کر رہی ہیں۔
ویسانگ اور ایک دوسری لاء فرم ہوگن لوویلز سے تعلق رکھنے والے ایک باخبر شخص نے فرم کے ساتھ امریکی پابنیدوں کے خلاف بات چیت کرنے والی کمپنیوں کے نام بتانے سے فی الحال انکار کیا ہے۔
امریکی جج کنٹریراس نے اپنے فیصلے میں کہا کہ امریکی محکمہ دفاع نے فائیو جی اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجیز کو ‘جدید ملٹری آپریشنز کے لیے ضروری’ ہونے کا الزام عائد کرنے کی وجہ سے کمپنی کو اس کی دونوں ٹیکنالوجیز کی ڈویلپمنٹ کی بنیاد پر بلیک لسٹنگ کی فہرست میں شامل کیا اور شیاؤمی کو سرمایہ کاری کی پابندی کے عمل میں شامل کرنا ایک سنگین غلطی ہے۔
حکومت نے آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ نہیں کیا
منگل کے روز مشترکہ کیس فائلنگ میں امریکی حکومت نے کہا کہ اس نے جج کے فیصلے کی روشنی میں شیاؤمی کے کیس میں ‘مناسب لائحہ عمل’ کا فیصلہ نہیں کیا۔
امریکی محکمہ انصاف کی ایک خاتون ترجمان، جو کیس کا دفاع کر رہی ہیں، نے اس بابت جواب دینے سے انکار کیا ہے۔ محکمہ دفاع کی خاتون ترجمان نے وائٹ ہاؤس کے حوالے سے سوالات کا حوالہ دیا جن کا اب تک جواب نہیں دیا گیا۔
1999ء کے ایک قانون کے ذریعہ امریکی محکمہ دفاع کو چینی ملٹری کی جانب سے ‘ملکیتی یا کنٹرولڈ’ کمپنیوں کی رپورٹ منظرِ عام پر لانے کا مینڈیٹ دیا گیا تھا جس کے تحت ٹرمپ انتظامیہ نے اقتدار چھوڑنے سے کچھ ماہ قبل شیاؤمی اور دیگر 43 چینی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا تھا۔
تمام امریکی سرمایہ کاروں کو 11 نومبر 2021 سے چینی کمپنیوں کے نام پر سکیورٹیز رکھنے سے مکمل طور پر باز رکھنے کے لیے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط نے بعد میں آنے والے امریکی صدر جوبائیڈن کو بھی چین پر شکنجہ کسنے کے لیے سخت پالیسیاں اپنانے کا پابند بنا دیا ہے۔
امریکی سکیورٹیز میں شیاؤمی کے علاوہ ویڈیو سرویلنس ہک ویژن (Hikvision)، چائنا نیشنل آف شور آئل کارپوریشن (سی این او او سی) اور صفِ اول کا چینی چپ میکر سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ انٹرنیشنل کارپوریشن لسٹڈ کمپنیوں میں شامل ہیں۔
امریکی بلیک لسٹ کی فہرست میں شامل میپنگ ٹیکنالوجی، لیوکُنگ ٹیکنالوجی کارپوریشن نے بھی رواں ماہ کے آغاز میں فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا تھا اور کمپنی شیاؤمی کو دیے گئے ریلیف کی طرح انہیں بھی اس کیس میں بری کرنے کی توقع کر رہی ہے۔