اسلام آباد: مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کے انسانی حقوق کے ناقص ریکارڈ کا احساس ہونے کے بعد جرمنی کی حکومت نے بھارت کو چھوٹے اسلحہ برآمد کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والی دو فرموں کے لائسنس منسوخ کر دیئے ہیں۔
گوکہ جرمنی بھارت کا چھٹا بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور یورپی یونین میں اس کا سب سے بڑا شراکت دار ہے تاہم اسے خوف ہے کہ بھارت اس کے برآمد کردہ چھوٹے ہتھیار غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر میں سول آبادی کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019ء سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر محیط فوجی محاصرے کو 565 دن ہو گئے ہیں، اس دوران وادی میں مکمل مواصلاتی بلیک آﺅٹ ہے۔
ٹیلی گراف انڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کشمیری عوام کے خلاف جارحیت بارے سوال اٹھانا شروع کر دیا ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے تسلیم شدہ حق خودارادیت کے حصول کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کا ریکارڈ جرمنی کی طرف سے چھوٹے ہتھیاروں کی برآمد کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ جرمنی کے ضوابط کے مطابق ایسی اقوام یا خطے کو ہتھیاروں کی فروخت پر مکمل پابندی ہے جہاں براہ راست یا بڑے پیمانے پر شہری آبادی یا اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہو۔
رپورٹ کے مطابق دو بھارتی سیکیورٹی حکام نے کہاکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی ناقص صورتحال کی وجہ سے یہ کمپنیاں جرمنی کی حکومت کی جانب سے اپنے برآمدی لائسنس برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئی ہیں۔
اگست 2019ء میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور نقل وحرکت اور مواصلات کی بندش کے محض تین ماہ بعد جرمنی نے اس پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلجیئم آرمز مینوفیکچرنگ کمپنی ایف این ہرسٹل (Fabrique National Herstal) نے بھی حال ہی میں بھارت کو ہتھیاروں کی فراہمی کی ایک ڈیل ختم کر دی تھی کیونکہ بلجیئم حکومت کو یہ خدشہ تھا کہ یہ ہتھیار جموں و کشمیر میں استعمال ہوں گے۔ بلجیم کی مذکورہ کمپنی کو چھوٹے ہتھیاروں اور اسالٹ رائفلز کی فراہمی کا 2020ء میں 70 کروڑ کا معاہدہ ملا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جرمن آرمز مینوفیکچرر ہیکلر اینڈ کوچ (Heckler & Koch)، جن کی ایم پی فائیو سب مشین گنز نیشنل سیکیورٹی گارڈز اور میرین کمانڈوز مارکوس یونٹ کے ہتھیاروں میں شامل ہے، انڈین مارکیٹ سے دستبردار ہو گئی ہے، کمپنی نے موقف اختیار کیا ہے کہ جرمن حکومت نے اس کی منظوری نہیں دی۔
بھارتی سیکیورٹی آفیشل نے اخبار کو بتایا کہ جرمنی کی جانب سے انکار کے بعد انڈیا کی وزارت دفاع نے امریکی میڈ آسالٹ رائفلز خریدنے کا فیصلہ کیا یے۔
جرمنی نے اس سے قبل گجرات، منی پور، جموں و کشمیر، آندرا پردیش اور مہاراشٹرا میں انسانی حقوق کی ناقص صورت حال پر بھارت کو ہتھیاروں کی برآمد پر پابندی لگا دی تھی۔
ٹیلی گراف نے اپنی رپورٹ میں وزارت دفاع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جرمنی نے کارگل جنگ کے دوران 1999ء میں انڈیا کی مقامی سطح پر تیار کردہ ایڈوانسڈ لائٹ ہیلی کاپٹر “دریو” کے لئے ٹیکنالوجی کی منتقلی اور جرمن سپیئر پارٹس کی تبدیلی روک دی تھی۔
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی 2019ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت 2014ء سے 2018ء کے درمیان بڑے ہتھیاروں کا درامد کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک تھا اور دنیا کی درامد کا 9.8 فیصد حصہ اس کا تھا۔
رپورٹ کے مطابق اس دوران بھارت کی طرف سے درآمد کئے گئے ہتھیاروں میں 58 فیصد روس سے منگوائے گئے تھے جبکہ اس دوران میں اسرائیل، امریکہ اور فرانس سے ہتھیاروں کی درآمد میں بھی اضافہ ہوا۔
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد پابندیوں سے گزشتہ صرف تین ماہ میں دو ارب 40 کروڑ ڈالر کا معاشی نقصان ہوا ہے جو کووڈ کے بعد دوگنا ہے۔
ڈاکٹروں کی جانب سے تسلسل سے یہ شکایت سامنے آ رہی ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش سے کووڈ رسپانس متاثر ہو رہا ہے۔ سافٹ وئیر فریڈم لاء سنٹر کے مطابق بھارت دنیا میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ بندش کا حامل ملک ہے جہاں 71 مرتبہ انٹرنیٹ بند کیا گیا اور اس میں سے 57 مرتبہ بھارت غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر میں میں بندش کی گئی۔