فیصل آباد: وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان نے کہا کہ آئی پی پیز بجلی پیدا کریں یا نہ کریں انہیں ادائیگی کرنا ضروری ہے ملک میں 70 فیصد بجلی درآمدی تیل کے باعث انتہائی مہنگی بن رہی ہے۔
جمعرات کو ایم تھری انڈسٹریل سٹی ساہیانوالہ فیصل آباد میں 132 کے وی اے گرڈ اسٹیشن اور وَن ونڈو سروس سنٹر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران عمر ایوب خان نے کہا کہ دنیا میں پاکستان کی ایک سٹریٹجک لوکیشن ضرور ہے لیکن بزنس کے حوالے سے وہی ممالک پسند کئے جاتے ہیں جہاں سرمایہ کار کو بجلی اور گیس سمیت تمام سہولیات میسر آئیں، بیرونی سرمایہ کار بھی ایسے ممالک میں بھاگ کر جاتے ہیں، اس لئے اگر ہمیں ترقی کرنی ہے تو دولت پیدا کرنے کے مواقع مہیا کرنا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پیپلز پارٹی کی حکومت کو اکثر بُرا کہتے ہیں لیکن زرداری دو ماہ کا زر مبادلہ چھوڑ کر گئے مگر مسلم لیگ ن کی حکومت صرف دو ہفتوں کا زر مبادلہ چھوڑ کر رخصت ہوئی۔ پارلیمنٹ اور میڈیا پر ہم جن بارودی سرنگوں کی بات کر تے ہیں وہ سارے پچھلی حکومت کے چھوڑے ہوئے مسائل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
بجلی بلوں سے نیلم جہلم سرچارج ختم کیے جانے کا امکان
بجلی 1.95 روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری
گردشی قرضہ کیا ہے اور یہ کیوں ختم نہیں ہو رہا؟
وفاقی وزیر نے کہا کہ 2013ء میں لازمی ادائیگی کی مد میں ہمیں 185 ارب روپے دینا تھے، 2018ء میں 650 ارب روپے جبکہ 2020ء میں 860 ارب روپے ان کے معاہدوں کی وجہ سے پاکستان کو ادا کرنا پڑ رہے ہیں، یہ وہ رقم ہے جو آئی پی پیز بجلی پیدا کریں یا نہ کریں ان کو لازمی ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ حکو مت کی شفافیت یہی ہے کہ ہم سستی بجلی دے رہے ہیں، بجلی کی تقسیم کے نظام پر پہلے بھی ایک خطیر رقم خرچ کی ہے اور اب بھی 75 ارب روپے خرچ کر رہے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے بجلی کی مد میں وزیر اعظم نے 650 ارب روپے رعائت دی لیکن 1.95 روپے فی یونٹ کا اضافہ حکومت نے انتہائی مجبوری میں کیا۔
عمر ایوب نے کہا کہ پچھلی حکومت ہمیں بجلی کا ایک انتہائی فرسودہ نظام دے کر گئی ہے جس میں بہتری کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انر جی سیکٹر میں 40 ارب ڈالر سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں۔ حکومت کا ویژن ہے کہ 2030ء تک 60 فیصد گرین انرجی پیدا کی جائے جس میں سولر، بائیو اور ونڈ انرجی کے منصوبے شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فیصل آباد انڈسٹری کے حوالے سے پورے براعظم ایشیا میں ترقی کرنے والا شہر ہے، چین کی ترقی کا راز تربیت یافتہ لیبر میں ہے، سرمایہ کاروں کو چاہیے کہ وہ لیبر کو تربیت کے مواقع پیدا کریں کیونکہ کچھ عرصہ بعد انہیں بھی جب تربیت یافتہ لیبر ملے گی تو ان کی انڈسٹری کو گھر بیٹھے کروڑوں کا فائدہ ہو گا۔
عمر ایوب نے کہا کہ ہماری جی ڈی پی کل ملا کر 600 ارب ڈالر بنتی ہے یعنی ہماری معیشت کا کل حجم 600ارب ڈالر تک ہے۔ دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں تیل پیدا کرنے والا ملک ہونے کے باوجود سعودی عرب کی معیشت کا حجم 800 ارب ڈالر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس زراعت، انڈسٹری اور سروسز میں سرمایہ کاروں کیلئے بہت مواقع ہیں۔ ہم ایک بڑا ملک ہیں اور ہمارے پاس ایرو ناٹیکل، میزائل اور جہازبنانے کے کارخانے موجود ہیں۔