پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2.58 کھرب تک پہنچنے کا امکان

831

اسلام آباد: مالی سال 2021ء کے آخر (جون) تک پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2587 ارب روپے تک بڑھنے کا امکان ہے۔

ذرائع نے پرافٹ اردو کو بتایا کہ رواں برس جون تک انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو 1510 ارب روپے تک ادائیگی کرنا ہو گی جس کے باعث شعبہ توانائی کا گردشی قرض بڑھ کر 2587 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔

اسی طرح پاور جنریشن کمپنیوں (جینکوز) کی جانب سے فیول سپلائیرز کو تقریباََ 100 ارب روپے ادا کرنا ہیں اور پاور ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ (پی ایچ پی ایل) میں رکی ہوئی رقم کا تخمینہ 77 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

ذرائع نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دعوؤں کے برعکس پاور سیکٹر کا گردشی قرض دن بدن بڑھ رہا ہے۔ 2018ء میں مجموعی گردشی قرض کی مالیت 1612 ارب روپے تھی جو 2019ء میں 2150 ارب روپے جبکہ 2020ء میں یہ رقم 2303 ارب روپے تک جا پہنچی۔

یہ بھی پڑھیے:

سال 2020ء: حکومت نے کتنے ارب ڈالر بیرونی قرض واپس کیا؟

گردشی قرضے سے جان چھڑانے کیلئے حکومت کی آئی پی پیز کو واجبات ادائیگی کی پیشکش

ذرائع کا کہنا ہے حکومتی نااہلی، بجلی بلوں کی کم ریکوری اور بجلی چوری گردشی قرضے میں اضافے کی وجہ ہے، یہ صورت حال بجلی کے پیداواری، ترسیلی اور تقسیم کے نظام کے ساتھ ساتھ تیل و گیس کے شعبوں کو بھی متاثر کر رہی ہے کیونکہ حکومت مذکورہ شعبوں پر مناسب سرمایہ کاری نہیں کر رہی۔

اس سے قبل کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاور ڈویژن کو بلنگ، آمدن اور پاور سیکٹر کے گردشی قرضے کے مکمل اعدادوشمار پیش کرنے کی ہدایت کی تھی جس پر پاور ڈویژن نے تصدیق شدہ اعدادوشمار جمع کرائے تھے۔

یہ بھی مدِ نظر رہے کہ موجودہ حکومت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ وہ ماہانہ گردشی قرضے کو مسلم لیگ (ن) کے 38 ارب روپے سے کم کرکے 12 ارب روپے ماہانہ تک لے آئی ہے اور گزشتہ سال دسمبر کے آخر تک 12 ارب روپے سے بھی مزید کم کر کے 8 ارب روپے لانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

تاہم حکومت کی جانب سے کیے گئے تمام تر دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں کیونکہ گردشی قرض میں دن بدن مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

دوسری جانب جمعرات کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران جواب دیتے ہوئے وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا تھا کہ ملک میں کل آٹھ ہزار 880 فیڈرز میں سے 80 فیصد پر لوڈ مینجمنٹ نہیں ہے، جہاں بجلی چوری اور لائن لاسز زیادہ ہیں وہاں بہتری لا رہے ہیں، سندھ میں بجلی چوروں پر ہاتھ ڈالا تو وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ایف آئی آر نہیں کاٹ سکتے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here